گزشتہ دنوں ہمارے ایک دوست نے لیسکووالوں سے شکایت کی ان کے علاقے کے ٹرانسفارمر سے زمین دوز لمبی تاریںبچھا کر چوری چھپے آگے کی بستیوںکوناجائز طورپر کنکشن دے دیے گئے ہیں جس سے لوڈ بڑھنے سے بار بارتاریں جل جاتی ہیں ۔ آئے دن بجلی کی ترسیل کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔انہوں نے ساتھ یہ بھی درخواست کی کہ قواعد کے مطابق اگلے علاقے کو نیا ٹرانسفارمر لگا کر اس سے بجلی دی جائے۔لیسکو افسر نے ان سے کہا کہ نئے ٹرانسفارمر نہیں ہیں اور بیشک آپ کے ٹرانسفارمر سے غیر قانونی طور پر اگلی بستی والوں کو کنکشن دیے گئے ہیں لیکن یہ سب انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ہمارے دوست نے لیسکو افسر سے پوچھا کہ آپ کا عملہ توبغیر میٹر لگائے ہمارے ٹرانسفارمر سے کنکشن دے کر بجلی چوری کروا رہا ہے،وہ ان لوگوںسے ماہانہ لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں جس میں سے ظاہر ہے اوپر تک بھی مناسب حصہ پہنچتا ہو گا۔ غور کریں تو ہمارا پورا معاشرہ اور ریاستی نظام اسی انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت چل رہا ہے۔ہم نے دراصل اسی انسانی ہمدردی کے جذبے کو اپنے غیر قانونی‘ غیر اخلاقی اور ناجائز کرتوتوں کو جواز کا لبادہ اوڑھانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔اس طرح کے انسانی ہمدردی کے جذبے کی کارستانی ہمارے ذاتی معاملات سے لے کر ریاستی سطح پر ہر شعبے میں کارفرما ہے۔ کوئی تیس سال قبل کی بات ہے ہمارے ایک دوست جوہر آباد خوشاب میں ٹریفک کے انچارج مقرر ہو گئے۔انہوں نے دیکھا کہ صبح صبح ضلعی ہیڈ کوارٹر کی طرف آنیوالی تمام بسیں نہ صرف چھتوں تک سواریوں سے لدی ہوتی ہیں بلکہ ان کی کھڑکیوں‘ دروازوں اور چھت کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر چمٹ کر لوگ سفر کرتے ہیں۔ یہی حال شام کے وقت ان بسوں کی اپنے اپنے قصبات کی طرف واپسی کے موقع پر ہوتا ہے۔انہیں بڑا غصہ آیا۔روزانہ سینکڑوں انسانوں کو اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس طرح سفر کرتے دیکھ کر انہوں نے ان بسوں کا چالان کرنے کا فیصلہ کیا۔پھر انسانی ہمدردی کی بنیادپر انہوں نے خطرات سے بھرپور غیر قانونی کام سے چشم پوشی کر لی کیونکہ ان کے خیال میں اپنے کاموں کے سلسلے میں ضلعی ہیڈ کوارٹر کی طرف آنے اور جانے کیلئے لوگوں کے پاس کوئی متبادل ذریعہ موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اگر وہ چالان کرتے اور اس سلسلہ کو روکنے کی کوشش کرتے تو بس مالکان کو بسوں کی تعدادمیں اضافہ کرنا پڑتا۔اس سے سفربھی نسبتاً محفوظ ہو جاتا اور کئی اورلوگوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع بھی پیداہو جاتے۔ کوئی بیس برس قبل کی بات ہے چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ سول سیکرٹریٹ اور دیگر دفاتر میں عموماً سرکاری ملازمین گھنٹہ دو گھنٹہ دیر سے آتے ہیں جس کا یہ جواز دیا گیا کہ صبح ملازمین کو اپنے بچوں کو سکولوںمیں چھوڑنا پڑتا ہے اور گھر کے کئی چھوٹے بڑے ضروری معاملات بھی نمٹانے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دیر سے دفاتر میں آتے ہیں۔اس پر وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ سرکاری دفاتر دو گھنٹے دیر سے کھولے اور بند کئے جائیں تاکہ ملازمین اپنے گھریلو کام بھی آسانی سے نمٹا سکیں اور دفاتر میں اوقات کار میں بھی کوتاہی نہ ہواور دو گھنٹے کے وقفے سے تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلیں اور بند ہوں تو سڑکوں پر ٹریفک کے مسائل بھی نہ پیدا ہوں۔ہر طرف سے بڑی واہ واہ ہوئی لیکن دو تین مہینے گزرنے کے باوجود اس فیصلے پر عملدرآمدنہ ہوا توراقم نے چیف سیکرٹری سے پوچھا کہ اتنے اچھے فیصلے پرعملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا ۔بتایا گیا کہ جب سارے معاملے کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ بہت سارے سرکاری ملازمین دفتر سے چھٹی کے بعد کوئی ملازمت یا کاروبارکرتے ہیں جس سے ان کے گھرکا نظام چلتا ہے اور اگر دوسرے دفاتر بند کئے گئے تو ان کا نظام متاثرہوگا۔تو پھر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا گیا۔تب سے اب تک ایک ہی وقت میں تعلیمی ادارے اور دفاتر کھلنے وبند ہونے سے صبح اورشام کے اوقات میں سڑکوںپر ٹریفک کا اژدھام ہوتا ہے۔سرکاری دفاتر میں ملازمین نے خود اپنے اوقات کار مقررکر رکھے ہیں اس حمام میں سب ننگے ہیں لہٰذا کوئی کسی کو پوچھتا نہیں ہے۔فیصلہ کرنے والوں نے انسانی ہمدردی کے تحت اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ فیصلے کرنے والوں کو انسانی ہمدردی کے تحت چشم پوشی کا ایک نمونہ سمگلنگ ہے جس نے نہ صرف قانونی معیشت کے متوازی غیر قانونی معیشت کی شکل اختیار کر لی ہے بلکہ اب ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لی ہے جو قانونی معیشت کو نگلتا جا رہا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانیوں اورقبائلیوں کو پاکستان کے اندرسمگلنگ کے غیرقانونی کاروبار کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کے نتیجے میں پہلے پشاور کے قریب باڑہ مارکیٹ ہوتی تھی اب یہ نام سمگلنگ کے مال کی منڈیوں کا برینڈ نام بن گیا ہے۔پورے ملک کے ہرشہر میں باڑہ مارکیٹوں کا نیٹ ورک ہے۔ہائی ویز پرقبائلی و افغانی ہوٹلوں کے نیٹ ورک ہیں۔ جگہ جگہ اس دھندے میں ملوث لوگوں نے اپنے ڈیرے قائم کر رکھے ہیں اورمکمل متوازی معیشت چلا کر پاکستان کے قومی خزانے کو ہزاروں ارب سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس انسانی ہمدردی کی تازہ مثال ایران سے آنے والا تیل ہے۔ حکومت پاکستان نے جولائی اور اگست میں عرب ملکوں سے ایک بیرل بھی ڈیزل درآمد نہیں کیا جو اوسطاً ڈیڑھ لاکھ بیرل ماہانہ ہوتا تھا۔پاکستان میں انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت450ارب سالانہ کی بجلی چوری ہونے دی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ایران کے بارڈر سے لے کر کراچی کے نزدیک حب اورپھر کوئٹہ وتربت سے سکھر تک رہنے والے لوگوں کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہیں اس لئے انسانی ہمدردی کے تحت حکومت چشم پوشی کر کے ان کو روزگار کا موقع فراہم کررہی ہے ۔کوئی پوچھے کہ کیا سمگلنگ کا فائدہ غریب بے روزگار آدمی کو پہنچتا ہے یا کہ علاقائی سرداروں‘ وڈیروں ‘ سیاستدانوں اور سرکاری اہلکاروں کو پہنچتا ہے؟ کیا سمگلنگ کے سلسلے کو روک کر تمام درآمدات وبرآمدات کوقانون کے تحت لا کرٹیکس جمع کر کے زیادہ روزگارکے مواقع پیدا نہیں کئے جا سکتے؟ کوئی ہے جو اس ملک کے بارے میں بھی انسانی ہمدردی کے جذبے سے سوچ سکے؟