27جولائی 2023ء جمعرات کو دہلی میں چین کے سفارت خانے نے بھارتی صوبے اروناچل پردیش کے کھلاڑیوں کو انڈین پاسپورٹ کومسترد کرتے ہوئے چینی موقف کو اٹل اورناقابل تنسیخ قراردے کر ایک علیحدہ کاغذ پر ویزے جاری کئے ہیں۔ جمعرات کو جب یہ ٹیم چین کے لیے روانہ ہو رہی تھی توانڈیاکے ایئر پورٹ پر حکام نے انہیں روک دیا۔یہ معاملہ انڈین وشو ٹیم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں تمغے جیتنے کی توقع کر رہی تھی۔ اس ٹیم میںسال 2018ء کے ایشیائی کھیلوں میں تمغہ جیتنے والی منی پور کی روشیبینا دیوی نورم بھی شامل تھیں۔ انڈین حکومت کی طرف سے انڈین کھلاڑیوں کے لئے ویزوں کی درخواست 16 جولائی2023 ء کو دی گئی تھی۔ چینی حکام نے دیگر اراکین کو وقت پر ہی ویزا جاری کر دیا، تاہم اروناچل پردیش کے کھلاڑیوں کے لیے دستاویزات قبول نہیں کی گئیں۔اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوںسے بعض دیگر دستاویزات طلب کی گئیں اور اس کی بنیاد پر انہیں اسٹیپلڈ ویزا جاری کیا گیا ۔چین کا دعویٰ ہے کہ اروناچل چین کا علاقہ ہے۔یعنی چین اروناچل پردیش کو اپنا ہی ایک صوبہ مانتا ہے اور وہ اس پر انڈین کنٹرول کوجبری اورناجائز قبضہ سمجھتا ہے۔انڈین پاسپورٹ سے الگ دستاویز بناکر چین کے ویزافراہمی پرانڈیا نے بطور احتجاج چین کے شہر چینگڈو میں وشو (مارشل آرٹ) کے عالمی گیموں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں 28 جولائی 2023ء سے ورلڈ یونیورسٹی سطح کے ٹورنامنٹ کا آغاز ہو رہا ہے۔واضح رہے کہ 2013ء میں چین جانے والے متعدد کشمیریوں نے دہلی میں چینی سفارت خانے میں ویزاحاصل کرنے کی غرض سے جب انڈین پاسپورٹ جمع کرائے توان کے انڈین پاسپورٹ مسترد کرتے ہوئے انہیں بھی اسٹیپلڈ ویزے جاری کیے۔ چین کشمیر کو انڈیا کاحصہ نہیں سمجھتا اوراس کاموقف ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا ایک نا مکمل ایجنڈا ہے اورتب تک یہ علاقہ متنازعہ ہے جب تک اسے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت حل نہیں کیاجاتا۔ انڈین وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیاکی مارشل آرٹ کی ٹیم چین کے شہر چینگڈو کے لیے جانے والی تھی، ٹیم میں شامل تین افراد کا تعلق اروناچل پردیش سے ہے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ نے چین کی جانب سے ریاست اروناچل پردیش کے تین کھلاڑیوں کو انڈین پاسپورٹ پر ویزا نہ جاری کرنے کے فیصلے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ چین کایہ عمل ناقابل قبول ہے اور اس معاملے پر اپنے مستقل موقف کا اعادہ کرتے ہوئے چینی فریق کے ساتھ اپنا سخت احتجاج درج کرایا ہے۔چین ماضی میں بھی اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزا دینے سے منع کر چکا ہے یا پھر انہیں اسٹیپلڈ ویزے جاری کیے ہیں۔ اسٹیپلڈ ویزوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چین اروناچل پردیش پر بھارتی خودمختاری کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ بھارت نے اسی بنیاد پر اپنی مارشل آرٹ ٹیم کو چین نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔سال 2011ء میں بھی دہلی میں قائم چینی سفارت خانے نے اروناچل پردیش سے تعلق رکھنے والے کراٹے کے پانچ کھلاڑیوں کو کوانگھو میں ہونے والی چیمپئن شپ کے لیے اسٹیپلڈ ویزے جاری کیے تھے جبکہ سال 2013ء میں دو تیر اندازوں ماسیلو میہو اور سورانگ یومی کو اسی وجہ سے یوتھ ورلڈ آرچری چیمپئن شپ میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ چین کادوٹوک موقف ہے کہ ارونا چل پردیش ،لغت میںجس کے معنی ’’شفق صبح‘‘ والے پہاڑ کی سرزمین کے ہیں کا 84 ہزار 747 مربع کلومیٹر کا علاقہ تبت کا حصہ ہے۔ اروناچل پردیش انڈیا کے شمال مشرق میں واقع ہے۔اس کی سرحدیں جنوب میں انڈیا کی دو ریاستوں آسام اور ناگالینڈ سے ملتی ہیں، جبکہ مغرب میں بھوٹان، مشرق میں میانمار اور شمال میں عوامی جمہوریہ چین ہے۔ انڈیا نے اس متازعہ علاقے کو 20فروری 1987ء میں بھارت میں شامل کر دیا ہے۔2011ء میںکرائی جانے والی مردم شماری کے مطابق اروناچل پردیش کی آبادی 1,382,611 نفوس پرمشتمل ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 20,000ہے،جبکہ اکثریت ہندئووں کی ہے جن کی تعداد3,70,000 ہے۔ مسیحیوں کی تعداد 2لاکھ بتائی جاتی ہے۔ بدھ مت کے ماننے والے ڈیڑھ لاکھ ہیں۔ اروناچل پردیش کے قدیم مذہب ڈونیو پولو کے ماننے والوں کی تعداد 3,30,000ہے۔ یہ تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے کیوں کہ اس مذہب کے ماننے والے تیزی سے دیگر مذاہب قبول کررہے ہیں۔60 نشستوں پر مشتمل اروناچل پردیش میں ایک قانون ساز اسمبلی ہے جبکہ بھارتی پارلیمان کیلئے یہاں دونشستیں رکھی گئیں ہیں۔ ایٹانگر اروناچل پردیش کا دارالحکومت ہے۔چین بھارت کا اصل تنازع اروناچل پردیش اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے لداخ علاقے پر ہے۔ چین کا موقف ہے کہ اروناچل پردیش چین کاعلاقہ ہے جبکہ لداخ کے حوالے سے چین کا موقف ہے کہ انڈیا نے اس پر بھی جبری قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب بھی انڈیا کا کوئی اہم سرکاری عہدیدار اس علاقے کا دورہ کرتا ہے تو چین اس پر اعتراض کرتا ہے۔ 14 اکتوبر 2021ء کوانڈیا کے نائب صدر وینکیا نائیڈوکے دورہ اروناچل پردیش کے موقع پر چین نے اعتراض کیا ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے اور وہ اسے بھارتی ریاست تسلیم نہیں کرتا۔ چین نے اپنا یہ موقف دہرایا کہ اس نے کبھی بھی نام نہاد اروناچل پردیش کو تسلیم نہیں کیا جو بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر اورغیر قانونی طور پر قائم کی گئی ہے۔جبکہ4 نومبر اپریل 2023ء کوجب انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اروناچل میں سرحد پر واقع ایک گائوں کا دورہ کیا ۔یہ ان کے انڈین وزیر داخلہ کی حیثیت سے ان کا اروناچل پردیش کا پہلا دورہ تھا توچین نے امیت شاہ کے دورے پرسخت اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی وزیر داخلہ کا دورہ چین کے علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے۔ امیت شاہ کے دورے سے ایک ہفتے قبل چین نے ایک نیا نقشہ بھی جاری کیا تھا جس میں اروناچل پردیش کے11علاقوں کے نام تبدیل کرتے ہوئے ان علاقوں کو جنگنان صوبے کے حصے کے طور پر دکھایا گیا تھا، جس میں جنوبی تبت بھی شامل ہے۔