دوسری جنگ عظیم یکم ستمبر 1939کو ہٹلر کی پولینڈ پر یلغار سے شروع ہوئی اور چھ سال کی ہولناکیوں کے بعد2 ستمبر کو 1945کواپنے انجام کو پہنچ گئی ۔اس جنگ میں دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک نے حصہ لیا۔ جرمنی کی فوج نے 7 مئی 1945 کو اتحادیوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دئیے اور 8 مئی کو یورپ کے تمام علاقے میں جنگ ختم ہو گئی۔لیکن جاپان نے جنگ جاری رکھی۔ 6 اگست 1945کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور پھر 9اگست1945 کو ناگا ساکی پر امریکہ کے ایٹم بم برسانے کے بعد لاکھوںعام شہریوں کی ہلاکت کے نتیجے میں جاپان نے بھی 15 اگست کو ہتھیار ڈال دئیے۔ہیروشیما میں تقریباً ایک لاکھ بائیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور لاکھوں زخمی اور معذور ہوئے جب کہ ناگا سکی میں تقریباً سوا دو لاکھ مارے گئے اور کئی لاکھ زخمی اور معذور ہوئے۔2ستمبر کو جاپان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر باقاعدہ دستخط ہونے کے بعد اس جنگ کے مکمل خاتمے کا اعلان امریکہ کے اسوقت کے صدر ٹرومین کی طرف سے کر دیا گیا۔ جنگ عظیم دوم میںہتھیار ڈالنے سے پہلے جاپانکی فوجیں ، ہانگ کانگ، ملایا، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، برما ، فلپائن او ر بہت سے دوسرے علاقے فتح کرنے کے بعد ہندستان کے علاقے تک پہنچگئی تھیں۔لوبانگ ، فلپائن کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ جاپانی جب یہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے چار نوجوانوں کو اس جزیرے پر تعینات کیا اور انہیں ہدایت کی کی تم نے یہاں رہنا اور جزیرے پر ہی لڑنا ہے۔ اگر تمہیں کوئی مشکل پیش ہو تو عام جنگ کی بجائے گوریلا جنگ شروع کر دینالیکن جب تک اگلے احکامات نہ ملیں تمہیں ہر قیمت پر جنگ جاری رکھنا ہے۔نوجوان اپنے مورچوں پر ڈٹ گئے ۔وقت گزرتا گیا ۔ جاپان نے ہتھیار ڈال دئیے مگر ان نوجوانوں کو نئے احکامات نہیں ملے۔ لوبانگ کے جنگل میں جو آتا یہ اسے مار دیتے۔ 1950 میںایک فوجی نے ہتھیار ڈال دئیے۔دو دوسرے ایک جھپٹ میں مارے گئے۔آخر میں اگلے احکامات کا منتظر اکیلا لیفٹیننٹ ہائیرو انوڈا (Hiroo Onoda) بچاجو اپنے محاذ پر ڈٹا اور کھڑا تھا۔ وہ جنگل میں مقیم تھا اوروہاں ناریل اور کیلے کھا کر زندہ رہا۔اس کے علاوہ کبھی کبھی کوئی دیہاتی ہتھے پڑھ جاتا تو اسے مار کر اس کے سامان پر قبضہ کرلیتا۔ اس سامان سے بھی اسے بسا اوقات بہت سی کھانے پینے کی چیزیں جیسے چاول یا ایسی کوئی دوسری چیز یں مل جاتیں وہ کھا لیتا۔ اس طرح اس کا گزارہ ہوتا رہا۔سب سے دلچسپ بات یہ کہ جاپان کی حکومت نے اسے برسوں لاپتہ جانتے ہوئے 1959میں اسے باقاعدہ مرا ہوا قرار دے دیا۔جنگ کو ختم ہوئے 29 سال بیت چکے تھے مگر وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تھا بلکہ اس علاقے میں آنے والے ہر شخص کو مارنے کے مشن پر تھا۔ جنگل میں دیہاتیوں کے غائب ہونے کی وجہ سے فلپائن کی حکومت نے اس جنگل میں سرچ آپریشن کیا تو انہیں ہائیرو انوڈا کا پتہ چلا۔ اس سے بات چیت کی گئی مگر وہ کسی قیمت پر ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔اس دوران ایک جاپانی نوریو سوزوکی وہاں آیا۔اس نے ہارو سے ملاقات کی اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ مگر اس کی کوشش کے باوجود ہارو اپنے کمانڈر کے احکامات کے بغیر ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھا۔فلپائن والوں نے جاپان حکومت سے رابطہ کیا اور اس وقت کے اس علاقے کے کمانڈر کو خاصی تگ و دو سے ڈھونڈھ کر فلپائن بھیجا گیا۔ کمانڈر لوبانگ پہنچا۔ جنگل میں جا کر اس نے ہاہیرو اناڈو کو بتایا کہ جنگ ختم ہو چکی ۔اپنے کمانڈر کو پہچان کر انوڈا جنگل سے باہر آیا اور اپنی تلوار کمانڈر کر سپرد کرکے باقاعدہ ہتھیار ڈال دئیے۔ اس دن 9مارچ1974 کی تاریخ تھی۔یوں اس نے 29 سال تک پوری دیانتداری اور لاجواب ہمت سے اپنی ڈیوٹی نباہی۔کہتے ہیں کوئی بھی جنگ اس وقت ختم ہوتی ہے جب دشمن کا آخری سپاہی یا تو مارا جائے یا پھر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔یوں 1939 میں شروع ہونے والی جنگ عظیم دو م عملی طور پر اپنے آخری سپاہی ہارو اناڈو کے ہتھیار ڈالنے پر 1974 میں اپنے اختتام کو پہنچی۔ہاروانوڈا کو جاپان لایا گیا جہاں اس کا استقبال ایک ہیرو کی طرح کیا گیا۔ ہائرو 1922 میں جاپانی شہر واکایاما میں پیدا ہوا ۔وہ اپنے بہن بھائیوں میں پانچواں تھا۔اس کا باپ تانی جیرو ایک سخت گیر استاد اور وہاں کی لوکل کونسل کا ممبر تھا جو گھر میں بہت کم وقت دیتا تھا۔چنانچہ اس کی ماں نے تنہا اپنے بچوں کی پرورش کی۔وہ اپنے علاقے کی پہلی خاتون ٹیچر تھی جس کی خواہش تھی کہ اس کے بچے بہتر مستقبل کے حامل ہوںجواپنے ملک اور قوم کی بہتری میں کچھ کر سکیں۔1939 میں جب وہ سترہ برس کا تھا ان نے گریجوایشن کی اور گھر سے بھاگ کر چین کے علاقے ’’وہان‘‘ چلا گیا جہاں اس کا بھائی ایک سپاہی کے طور پر کام کر رہا تھا۔یہ علاقہ 1938 سے جاپان کے قبضے میں تھا۔1942 میں اس نے آرمی جائن کی، انٹیلیجنس آفیسر کی ٹریننگ لی اور اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ لوبانگ فلپائن تعینات کیا گیا۔1974 میں جاپان واپس آنے کے دو سال بعد جاپانیوں کی غیر ضروری توجہ سے گھبرا کر وہ برازیل منتقل ہو گیا جہاں اس نے فارمنگ شروع کی اور ساتھ برازیل کی ائیر فورس کے جوانوں کو ٹریننگ بھی دیتا ریا۔ اس نے 1976 میں ایک کاروباری خاتون ماچی سے شادی کی جو اس کی وفات تک اس کے ساتھ رہی۔برازیل کی حکومت کی طرف سے ائیر فورس کے جوانوں کو ٹرین کرنے کے صلے میں اسے برازیل کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا۔16جنوری 2014 کو جنگ عظیم دوم کا یہ شاندار ہیرو ٹوکیو کے ایک ہسپتال میں دل کا دورہ پڑنے کے سبب ز ندگی کی بازی ہار گیا ۔ آج بھی جوان ہمتی، وفاداری اور مستقل مزاجی کی بات ہوتی ہے تو ہارو اناڈو کا نام اس چیز کی ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آتا ہے۔