نیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کا شغرتک ۔ کیا عِلم دیںتمہیں سایہ اوڑھنے والو۔ٹوٹا ہے کہاں پیڑ، کہاں شاخ جلی ہے؟تقریباً دو ارب مسلمان ہیں۔دنیا کی کل آبادی کا 24فیصد نبی ؐ آخر الزمان کے پیرو کار ہیں۔اور تو اور26ملکوں کاسرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔اسے کہتے ہیں"مسلم اُمہ"۔مسلم تھاٹ پر حضرت علیؓ سے حضرت ابن عباس تک۔امام ابو حنیفہؒ سے امام مالکؒ ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل تک اور پھر حسن بنا سے علی شریفی تک مسلسل کام ہوتا رہا مگر مسلمان؟آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنوان ہو گئے۔ولی نصر امریکہ کے ایک مشہور مسلمان ایکڈیمک ہیں۔اُن کا مسلمانوں کو ایک قوم کی حیثیت سے دیکھنے کا اپناPerspectiveہے۔اُ ن کے مطابق مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑیں مڈل ایسٹ میں ہیں۔تاریخ اور جغرافیہ کا اپنا تسلسل ہے جو مسلمانوں کو الجھائے رکھتا ہے۔آئل جیسی قیمتی دریافت کے باوجود علم،تحقیق اور ٹیکنالوجی کی مغربی برتری مسلم اُمہ کے امیر ممالک کو بھی ایک خاص سطح سے اوپر اٹھنے نہیں دیتی۔بعض سکالرز اس کی ایک وجہ عیسائیت کا اسلام کے خلاف متعصب رویہ بھی گردانتے ہیں۔ولی نصر،فرید زکریا اور نازش ایوبی نے مسلم معاشروں میں اسلام کے سیاسی چہروں کی بھی بات کی ہے۔دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کی اپنی اپنی سیاسی ضرورتیں ہیں،قومی مفادات کے خواب اور تعبیریں ہیں۔اپنے ملک میں بھی اور عالمی شطرنج کی بساط پر بھی۔ جن ایکڈیمکس کا ابھی ذکر کیا وہ سب مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں سب سے بڑی وجہ مسلمان سماجوں میں حکمران اشرافیہ کی سنگدلی کو بھی قرار دیتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کی اکانومی۔ان کی مڈل کلاس کا رویہ۔ان کی انڈسٹریل عالمی ضرورتیں اور ان کے سیاسی مفادات ان کے عزائم کو تشکیل دیتے ہیں۔پھر مسلمان حکمرانوں کے امریکہ اور اسرائیل سے وابستہ چھوٹے بڑے مفادات۔مڈل ایسٹ کے اندر مسلمان ملکوں کی باہمی کولڈ وار اور ہاٹ وار۔مسلمان ملکوں کی اشرافیہ اس وقت کارپوریٹ ورلڈ کا حصہ بن کر مذہب سے زیادہ اکانومی اور ٹیکنالوجی کو مقدم جانتی ہے۔وہ اپنے مذہب کی بات کر کے دنیا کے طاقتور ترین غیر مسلم حلقوں کی نظر میں مشکوک نہیں ہونا چاہتے۔پاکستان روایتی طور پر اور معاشی طور پر ہمیشہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قریب ہوتا ہے۔ترکی،قطر اور مصر سمیت پاکستان کے قریبی مسلمان ممالک بھی اپنے اپنے قومی مفاد کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں یو ٹرن لے چکے ہیں۔چین کو الگ رکھیں باقی مسلمان ممالک کے یہ یوٹرن آنے والے دنوں میں کافی کچھ تبدیل کر دیں گے۔مسلمان ملک اپنی اپنی خارجہ پالیسی کو عالمی طاقت کے دریا کے بہائو کے مطابق ایڈجسٹ کر لیں گے۔مگر اس وقت بات ہر رہی ہے مسلم ممالک،مسلم معاشروں اور مسلمِ اُمہ۔ ان سب کا اپنا اپنا جغرافیائی محلِ وقوع ہے اس لیے بھی ان سب کا اپنا اپنا قومی مفاد ہے۔اس لیے26میں سے زیادہ تر ممالک اپنے دروازے نہیں تو اپنی کھڑکیاں ضرور اسرائیل کے لیے کھولیں گے۔مستقبل کے محاذ شاید مذہبی نہیں ۔۔۔ٹیکنالوجیکل اور اکنامک ہوں گے۔ فرمایا گیا۔۔۔اُمت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ایک عضو کو تکلیف ہو گی تو سارے جسم میں درد ہو گا۔مگر باہم جنگ وقتال اور مفادات کبھی نہ ختم ہونے والی سرد اور گرم جنگیں مسلمان معاشروں کو باہر ہی سے نہیں ،اندر سے بھی تقسیم در تقسیم کرر ہی ہیں۔ہنری کسنجر یہودی النسل امریکی ڈپلومیٹ اور ایکڈیمک ہیں۔یہ وہی ہیں جن سے سعودی عرب کے شاہ فیصل نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ہنری کسنجر امریکہ میں ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی پڑھاتے ہیں۔اکثر حکمران ان سے مشورہ لیتے ہیں۔اُن کے مطابق امریکہ کی دشمنی بُری چیز ہے مگر امریکہ کی دوستی اس سے بھی زیادہ گھاتک ہے۔کتنا حسین اتفاق ہے کہ مسلمان ملکوں میں حکومت کی شکل کوئی سی بھی ہو ۔رنگ و نسل اس ملک میں کیسا بھی ہو۔خواندگی کی شرح کچھ بھی ہو۔فی کس آمدنی کتنی بھی ہو۔کلچر کیسا بھی ہو۔بادشاہت ہو،جمہوریت یا کہ جعلی جمہوریت۔اشرافیہ کرپٹ ترین ہو۔گورننس بھلے سنگ دل ہو۔عوام خطِ غربت سے بہت نیچے ہو ںیا اوپر ۔ مگر یہ مسلمان ملک امریکہ کا دم بھرتے ہیں۔مزید قدرے مشترک۔ان کے لیے ملامت ،پستی،زوال۔۔۔معاشی نہ سہی اخلاقی ہی سہی۔تیل ہو نہ ہو۔مسلمان ملک امیر ہو کے غریب مگر کسی نہ کسی زاویے سے ان سب کو تھپڑ پڑ رہے ہیں۔جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔کیوں؟اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور مسلمان دنیا کی سب سے قابلِ رحم اُمت۔اتنی درماندگی اور پسماندگی کیوں؟ مسلمانوں کا آئیڈیل تو کائنات کی سب سے مبارک ہستی ہیں۔۔۔معتبر ترین اور اللہ کی محبوب ترین ہستی۔ اسلام ایک الوہی مذہب ہے۔اللہ نے اپنا کلام،اپنی محبوب ترین ہستی کے ذریعے ہم تک بھیجا۔اپنے آخری نبیؐ کو مکمل رول ماڈل بنا کر ہمارے سامنے مثال پیش کر دیا۔ان کا کردار،اسوۂ ،فکر،عمل اورحکمت عملی توجہ اور توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔آپؐ رشتے کیسے نبھاتے تھے،معاشرتی تعلقات میں کیسے معاملات چلاتے اور نبھاتے تھے۔حکومت میں اتار اور چڑھائو کو کیسے ہینڈل کرتے تھے۔آپ ؐ کی شخصیت ۔۔ خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی۔ جنگ میں بھی اور امن میں بھی۔سب کچھ تو بتا دیا۔دکھا بھی دیا۔ توپھر یہ زوال کیسا اور کیونکر؟ٹوٹا ہے کہاں پیڑ کہاں شاخ جلی ہے؟فرمایا گیا، جو برائی میں غالب ہے، وہ دراصل مغلوب ہے۔ہماری فکر اور عمل دونوں ٹیڑھے ہیں۔مستقیم سے بچھڑاہوا صراط۔انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ہم زندگیاں فرعون کی گزارتے ہیں اور عاقبت موسیٰ کی تلاش کرتے ہیں۔محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔اس سے صرف ہیپی نیو ایئر کی نذر نہ کر دیں۔رُک جائیں۔تفکر کریں۔اللہ کی کتاب میں بار بار تفکر کا ذکر ہے۔چھوٹے چھوٹے سانس لیتے انسانی بتوں پر انحصار چھوڑ کر اللہ پر توکل کریں۔اپنا رول ماڈل اسی کو بنائیں جس کا حکم ہے۔توکل رکھیں،احسان کریں۔کہ جہاں سے دنیاوی شطرنج کی بساط کے مہروں کاتصرف ختم ہوتا ہے۔وہیں سے اللہ کا فضل اور کرم شروع ہوتا ہے۔مسلمان اُمت اس وقت تاریخ کی دھار پر اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔اگر یہ چاہتی تو اس کا رویہ بدل سکتا تھا مگر ارشاد ہو رہا ہے"ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ" ۔