پاکستان کی سولہویں قومی اسمبلی کے نومنتخب اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے۔اپریل 2022 سے تاحال ایک سیاسی بے چینی پورے ملک میں منڈلا رہی تھی، امید کی جانی چاہئے کہ نئی پارلیمنٹ کے انتخاب کے بعد سیاسی قوتیں اپنے تنازعات جمہوری انداز میں بات چیت سے طے کرلیں گی۔نئی پارلیمنٹ سے یہ توقع بے جا نہیں ہے کہ دہشت گردی، معاشی بد حالی، سیاسی عدم استحکام ، آئین و پارلیمنٹ کی بالا دستی سمیت کئی ریاستی مفادات اس کی کارکردگی اور سنجیدگی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی دو ایوانی پارلیمنٹ کا ایوان زیریں ہے ۔ 2023 تک، قومی اسمبلی کے اراکین کی زیادہ سے زیادہ تعداد 336 تھی، انمیں سے 266 براہ راست بالغ حق رائے دہی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں جب کہ 60 خواتین کی مخصوص نشستوں اور دس اراکین اقلیتوں کے کوٹے پر منتخب ہوتے ہیں۔ آئین کے مطابق خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص 70 نشستیں سیاسی جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی کے مطابق دی جاتی ہیں۔ اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کا دعویٰ ہے جسے الیکشن کمیشن التوا کا شکار کر کے خدشات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ہر قومی اسمبلی پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتی ہے، اس مدت کا آغاز پہلے اجلاس کی تاریخ سے ہوتا ہے۔ نو منتخب اسمبلی کو سابق دو حکومتوں کی کارکردگی اور قانون سازی کا بوجھ برداشت کرنا ہے ۔عمران خان حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتمادکے بعد، 11 اپریل کو، قومی اسمبلی کی کارروائی سردارایاز صادق کی زیر نگرانی ہوئی۔ پاکستان کے اگلے وزیر اعظم کا فیصلہ کرنے پر ووٹنگ ہوئی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی اور پی ایم ایل این کی جانب سے شہباز شریف امیدوار تھے۔ ووٹنگ سے قبل پی ٹی آئی کے 123 ارکان قومی اسمبلی نے استعفیٰ دے کر واک آؤٹ کیا اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی واک آؤٹ کر گئے۔ ووٹنگ کے نتیجے میں شہباز شریف منتخب ہو گئے۔تحریک انصاف نے اس عدم اعتماد کو امریکی مداخلت اور پی ڈی ایم کی بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر رچائی گئی سازش قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر بھی سازش کا الزام لگایا۔ 16 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کی 8 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں تاخیر کی حکومتی درخواست کو نظر انداز کر دیا ۔یہ نشستیں پی ٹی آئی اراکین کے استعفے سے خالی ہوئی تھیں۔بعد میں یہ پی ٹی آئی نے جیت لیں۔آٹھ فروری کو عام انتخابات ہوئے ۔عوام کی بڑی تعداد نے پر امن طریقے سے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹر نیٹ اور موبائل سروس بند کئے جانے سے کچھ شکوک پیدا ہوئے ،انتخابی نتائج کی تاخیر اور فارم پنتالیس کے تنازع نے مزید خدشات ابھارے جن کی وضاحت الیکشن کمیشن بروقت نہ کر سکا۔ہزار دقتوں کے باوجود اطمیان بخش بات ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس صدر مملکت عارف علوی کے تحفظات کے باجود منعقد ہوا اور اراکین نے آئین اور ریاست سے وفادار رہنے کا حلف اٹھا لیا۔ آئین کے مطابق صدر عارف علوی 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے 21 دنوں کے اندر قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس بلانے کے پابند تھے، جس کی آخری تاریخ 29 فروری تھی۔ تاہم، ان کی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے، قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اجلاس ڈیڈ لائن کے دن یعنی 29 فروری کو طلب کر لیا۔قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وزارت پارلیمانی امور نے مطلع کیا ہے کہ اس کی درخواست پر وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے وزارت قانون و انصاف کی قانونی رائے حاصل کرنے کے بعد ان انتظامات کی منظوری دی۔ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق (2) کے تحت بلایا جا سکتا ہے۔ 8 فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں معلق پارلیمنٹ بنی ہے،نئی قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو دو تہائی نشستیں حاصل نہیں ہوئیں جو سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے درکار تھیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان مسلم لیگ-نواز کی زیر قیادت اتحاد، جس میں مرکزی بائیں بازو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور کئی چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہیں، قومی اسمبلی کی 266 براہ راست نشستوں میں سے 150 سے زیادہ کی مشترکہ طاقت رکھتی ہیں۔اس اتحاد نے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو دوسری مدت کے لیے اپنے امیدوار کے طور پر نامزد کیا ہے۔عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی برطرفی کے بعد شہبازشریف اپریل 2022 سے اگست 2023 تک ان ہی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت کے وزیر اعظم رہے۔نئی پارلیمنٹ کو کئی طرح کے چیلنجز لاحق ہیں۔2014 میں فوجی آپریشن کے ذریعے بہت سیعسکریت پسند گروپ پڑوسی ملک افغانستان مین پناہ گزیں ہو گئے۔ ان گروپوں کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے گزشتہ دو سال کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔نئی اسمبلی کو سیاسی انتقام کے خاتمے، معاشی بحالی،انتخابی اصلاحات،عدالتی اصلاحات، سماجی امن اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کا کام انجام دینا ہے۔یہ ایک بڑا چیلنج ہے جسے قومی ایجنڈہ ترتیب دے کر نمٹایا جا سکتا ہے اس لئے تمام قومی جماعتوں کو اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کرنا چاہئے۔سب سے اہم بات یہ کہ عام آدمی کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر اعتماد بحال کرنے کے لئے کوششوں کی ضرورت ہے۔