سابق وزیر اعظم مسلم لیگ نون کے قائد اور گزشتہ لگ بھگ چار دھائیوں سے مملکت خداداد پر حکمرانی کرنے والے شریف خاندان کے سربراہ میاں نواز شریف نے گزشتہ ہفتے دو دھماکہ خیز بیانات سے قوم کو نوازا ہے۔ پہلا تو یہ کہ وہ لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی اور دوسرا یہ کہ جب تک جنرل باجوہ ‘ جنرل فیض اور ثاقب نثار جیسے حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے والے لوگوں کا احتساب نہیں ہوتا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان کی پہلی بات تو اس چیز کا واضح عندیہ دیتی ہے کہ سیاسی معاملات مکمل طور پر ان کے قابو میں ہیں اور کچھ بھی ہو جائے اگلی حکومت وہی بنائیں گے۔ ابھی تک جبکہ وہ زندگی بھر کے لئے نااہلی کا سامنا کر رہے ہیں وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی؟ اور وہ بھی ان حالات میں کہ ان کی جماعت اپنی سولہ ماہ کی حکومت میں قوم کو ناقابل برداشت مہنگائی‘ معاشی بے یقینی اور بے پناہ مسائل کی دلدل میں پھینک کر گئی ہو اور ان سے کہیں زیادہ پاپولر سیاسی قوتیں بھی ان کے مقابل میدان انتخابات میں موجود ہوں اس کا مطلب تو صاف اور واضح ہے کہ معاملات طے ہو چکے ہیں۔ طے ہوئے بغیر پاکستان میں کوئی منتخب حکومت آ نہیں سکتی۔ یہ بات بے شمار شہادتوں کی موجودگی میں کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ گزشتہ چالیس سال میں تو کوئی بھی سیاسی حکومت بغیر پیشگی معاملات طے کئے حکومت میں نہیں آ سکی۔ چاہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو اور جونسا بھی سیاسی قائد ہو چاہے وہ جتنا بھی بڑا جمہوریت کو بہترین انتقام کہنے والا ہوں ووٹ کو عزت دلوانے والا ہو یا مکمل آزادی کا علمبردار ہو بغیر معاملات طے کئے وہ حکومت کی بھاگ ڈور بھی نہیں سنبھال سکا نہ ہی کسی کی اتنی اوقات ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ سیاستدان جب اقتدار میں آ جاتے ہیں تو جلد یا بدیر اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ نواز شریف پر ابھی بھی تاحیات نااہلی کی تلوار تو لٹک ہی رہی ہے لیکن ان کے حکومت بنانے کے دعوے کے پیچھے دراصل وہ حالات ہیں جو اس وقت کافی حد تک ان کے حق میں ہیں۔ نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ ختم کر سکتی ہے جیسا کہ اس نے نواز شریف کے خلاف مشرف دور کی سزائوں کے خلاف ایک Time .....اپیل کا حق دے کر سزا ختم کر دی اور حدیبیہ پیپلر ملز کیس میں نچلی عدالت سے ان کی بریت کو اس بنا پر برقرار رکھا کہ عدالت عظمیٰ میں اپیل قانون میں دیے گئے وقت کے گزر جانے کے بعد کی گئی۔ اب نواز شریف کی ساری امیدیں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے وابستہ ہیں۔ اگر یہاں مسئلہ حل ہو گیا تو نگران حکومت جس نے الیکشن کمیشن کو انتظامی مدد فراہم کرنا ہے وہ تو اپنے بھائی ہی کی بنائی ہوئی ہے جس میں شاہد اشرف تارڑ‘ ڈاکٹر توقیر شاہ اور چیمہ اور فواد حسن فواد ان کے وفادار وزراء بیٹھے ہوئے ہیں۔ رہ گیا الیکشن کمیشن تو اس کے سربراہ مبینہ طور پر چشمہ سمان کی قربت کے متمنی ہیں اور جہاں تک مقتدرہ کا تعلق ہے بڑی ہشیاری کے ساتھ خود پیچھے رہ کر اپنے مخالفین کے ساتھ اس کو اس قدر لڑا دیا گیا ہے کہ ان میں صلح کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ تو گویا انتخابات میں کسی بھی طرح کا کوئی کردار ادا کرنے والی تمام طاقتور قوتیں مجبور ہیں کہ وہ اپنے اپنے مسائل کی وجہ سے نواز شریف کا راستہ ہموار کریں اور وہ بھی نواز شریف کی شرائط پر۔ ایسا 1990ء ‘ 1997ء اور 2013ء کے انتخابات میں تو ہوا تھا جب میاں صاحب کو ان کی مرضی کے مینڈیٹ سے نوازا گیا۔ کیا اب بھی ہو گا؟ اس میں کئی سوالیہ نشان ہیں جن کا تعلق ان کے بیان کے دوسرے حصے یعنی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے والوں کے احتساب سے ہے۔ میاں نواز شریف کے انداز سیاست کو جاننے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی طرف سے مقتدرہ پر دبائو بڑھانے کی کوشش ہے اس کی کئی وجوہات ہیں کہا جا رہا ہے کہ مقتدرہ مسلم لیگ نون کی حکومت ۔۔۔۔۔کو تو تیار ہے لیکن میاں نواز شریف یا ان کی بیٹی کے لئے ابھی تک راضی نہیں ہے۔ ان کے بھائی بھی ابھی تک مقتدرہ کے منظور نظر ہیں جبکہ یہ صورت حال بڑے میاں صاحب کو گوارہ نہیں کیونکہ ان کو نظر آ رہا ہے کہ معاملہ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ والا بنتا جا رہا ہے اب اگر ریل چھوٹ گئی تو پھر ان کی بیٹی کے لئے شاید تمام راستے ہمیشہ کے لئے مسدود ہو جائیں اور یہ بھی امکان پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا کہ ان کی جماعت بھی ان کے خاندان ہی میں کسی اور کے قابو ہی میں نہ چلی جائے۔ ناقدین میاں صاحب کے بیانات کو مایوسی کی حالت میں کئے گئے آخری چارہ کار کے مصداق قرار دے رہے ہیں۔میاں نواز شریف اس صورتحال کا ذمہ دار انہی تین لوگوں کو قرار دیتے ہیں جن کے احتساب کا انہوں نے ارادہ ظاہر کیا ہے۔ جنرل باجوہ تو 2018ء میں بھی کسی صورت اقتدار شریف خاندان سے باہر نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی مقتدرہ نواز شریف یا ان کی بیٹی کے بجائے تب بھی شہباز شریف کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ اگر نواز شریف اپنی بیمار بیوی کو چھوڑ کر انتخابات سے 18دن قبل پاکستان آ کر معاملہ خراب نہ کرتے تو 2018ء میں بھی عمران خان کی بجائے شہباز شریف ہی وزیر اعظم بنتے جن کے اپنے بقول مقتدرہ کے ساتھ وہ اپنی کابینہ کے اراکین کے ناموں کو بھی حتمی شکل دے چکے تھے۔ یہی باجوہ تھے جنہوں نے نواز شریف کو جیل سے نکال کر سیدھا لندن میں ان کے گھر پہنچا دیا اور پھر ان کے مان جانے کے بعد خود نواز شریف کے مخالفین سے گالیاں کھا کر بھی ان کے بھائی کو اپریل 2022ء میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کرنے کا سبب بنے۔ یہ ہے نواز شریف کے غصے کی وجہ لیکن جاننے والے کہتے ہیں کہ یہ تو نواز شریف قیدی نمبر 804کے راستے پر چل پڑے ہیں اور اس طرح کے بیانات کی وجہ سے ان کے راستے مزید مسدود ہونے کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔