اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا منشیاتی اور جنسی سکینڈل کئی رخوں سے سماجی بحث کا موضوع بن سکتا ہے۔ اب تک سامنے آنے والے ہولناک انکشافات اگر سو فیصد سچائی پر مبنی نہ بھی ہوں تو بھی اس سکینڈل کے چند فیصد سچا ہونے کو بھی ہم ایسے سماجی اور اخلاقی آتش فشاں سے تعبیر کر سکتے ہیں جس کے تباہ کن اثرات معاشرے کے بچے کھچے اخلاقی اقدار کے تانے بانے کو ادھیڑ کے رکھ سکتے ہیں۔یہ منشیاتی اور جنسی سکینڈل ایک ہمہ جہت اخلاقی زوال کا صرف ایک منظر ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے میڈیا اور تعلیمی اداروں میں نقب لگائی۔تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کی ذہن سازی کرنے کے لیے میڈیا کو ایک ٹول کی طرح استعمال کیا گیا۔روشن خیالی کے اس نئے باب میں cool دکھائی دینے کی خواہش میں نوجوان نسل کے لیے لباس میں بے حجابانہ انداز ،بولڈنس، منشیات ،افیئرز، سیکس کو زندگی کے نارمل رویے کی طرح اختیار کرنے کی ترغیب موجود تھی۔ بات صرف اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی نہیں پاکستان کے کئی دوسرے تعلیمی اداروں میں منشیات اور آئس کا نشہ عام ہو چکا ہے اس حوالے سے آنے والے اعداد و شمار آپ کو چکرا کے رکھ دیں گے تعلیمی اداروں یں آئس اور منشیات کے نشے کے لیے سہولت کار ان تعلیمی اداروں کے اہلکار ہوتے ہیں۔ منشیات اور آئس کے نشے کے ساتھ ہی لڑکے لڑکیوں کا آزادنہ میل ملاپ۔ رات کی پارٹیاں ڈانس کی محفلیں اور ہر قسم کی جنسی سرگرمیاں جڑی ہوئی ہیں۔ لاہور کے تعلیمی اداروں میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے کچھ چیزیں منظر عام پر خبر بن کر آ جاتی ہیں اور کچھ نہیں آتی اور سہولت کاروں کی مہربانی سے یہ کریہہ جرائم معمول کی سرگرمیوں کی طرح جاری رہتے ہیں۔ لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے ہمارے ایک دوست خاندان کے لائق فائق بیٹے کوکالج کے چند دوستوں نے نشے پر لگا دیا ان کے والدین کو بروقت پتہ چلا اور انہوں نے باقاعدہ اس کا علاج کروایا۔لڑکے ،لڑکیوں کے ہوسٹلوں میں مافیاز کے لیے کام کرنے والے ایسے طالب علم موجود ہیں جو اپنے ساتھی طالب علموں کو اس نشے کی طرف لاتے ہیں اور جب وہ اس کی طرف نہیں آتے تو ان کی "فرسودگی " کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ نوجوان اپنے ساتھی نوجوانوں کے فیشن ٹرینڈز سے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ اسی متاثر ہونے کی کیفیت میں نشے کے عادی ہو جاتے ہیں پھر باقی کی ساری قباحتیں اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس سکینڈل کو کئی رخوں سے بحث کا موضوع بنایا جا سکتا ہے لیکن سر دست ہم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی بات کرتے ہیں۔ اس میں تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس سکینڈل میں یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلی عہدے داران پر مبینہ طور پرالزامات ہیں۔ادارے کے چیف سیکیورٹی آفیسر اعجاز شاہ دو اور ذمہ دار عہدے داران کو حراست میں لیا گیا ہے۔ا س سکینڈل کی شفاف تحقیقات کے نتیجے میں ہی پورا سچ سامنے آئے گا۔ فلحال اس سکینڈل کی خبروں کا بریک ہو جانا ہی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے اثرات بہت دور تک جائینگے۔ جنوبی پنجاب میں بہاولپور رحیم یار خان، خان پور صادق آباد علی پور،احمد پور شرقیہ بیلٹ میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور ان شہروں سے لڑکیاں اور لڑکے اعلی تعلیم کے لیے اس یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔سکینڈل کا اثر ان شہروں کے باسیوں اور ان والدین پر کیا ہوگا جنہوں نے اپنی بچیوں کو اس یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجا یا مستقبل قریب میں وہ اپنی بیٹیوں کو اس یونیورسٹی میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ان کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ والدین پورے اعتماد کے ساتھ اپنے بچیوں کو تعلیمی اداروں میں اور ان کے ہوسٹلوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔ تعلیمی ادارے کے حوالے سے کوئی سکینڈل آتا ہے تو یہ بہت ہی تشویش کی بات ہوتی ہے کیونکہ اس سے پورے معاشرے پر اثر پڑتا ہے۔والدین کا اعتماد تعلیمی اداروں سے اٹھ جاتا ہے خاص طور پر لڑکیوں کے والدین کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بچیوں کو دوسرے شہر میں پڑنے کے لیے بھیجیں۔جنوبی پنجاب ایک پسماندہ علاقہ ہے اس کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے اس سکینڈل کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ اگر کچھ لوگ اس گھنائونے کاروبار میں اور اس گھناونی سرگرمیوں میں ملوث تھے تو ان کو عبرت ناک سزا دینی چاہیے اور معاملات کو صرف رسمی تفتیش کرنے اور قانونی چارہ جوئی کی راہداریوں میں گھمانے پھرانے اور الجھانے کے بجائے اس کو منطقی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر یونیورسٹی کے تمام معاملات اور امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور دوسری تمام یونیورسٹیوں کے وی سی صاحبان کو بھی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات منشیات کے عادی ہوکر ہر قسم کی اخلاقی برائیوں میں ملوث ہو رہے ہیں کل یہ نوجوان کس طرح کا معاشرہ بنائیں گے ؟ اس بات کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ پہلے استاد روایت اور تہذیب کے جس دائرے کے اندر رہ کر بطور ایک استاد کے اپنا کردار نبھاتا تھا اب وہ ماضی کا قصہ ہے۔ طالب علموں کے لیے بطور ایک روحانی باپ کے وہ جن اقدارکی پاسداری کرتا تھا وہ اقدار اب زوال کا شکار ہیں۔ جب ایسے لوگ استاد کے درجے پر فائز ہو جائیں جو اپنی شاگردوں کے ساتھ عشق فرمانا معمول کی تعلیمی سرگرمیوں کا حصہ سمجھیں اور اسے تعلیمی کارکردگی کے اچھے نتیجے کے ساتھ جوڑ دیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ان طالبات کی ذہنی اور اخلاقی کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے جو اچھے نمبروں کے لیے استادوں کے ساتھ افیرز چلانے کو معیوب نہیں سمجھتیں۔پہلے ہی عرض کی تھی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا یہ سکینڈل کئی رخوں سے سماجی اور اخلاقی بحث کا موضوع بن سکتا ہے پرائم ٹائم ٹاک شوز میں لایعنی سیاسی بحثوں کے علاوہ اخلاقی اور سماجی حوالوں سے بھی گفتگو ضرور ہونی چاہیے۔