13 محرم اُلحرام (25 ستمبر) کی رات ،راولپنڈی کے نواح میں ، آلِ امام حسین علیہ السلام کے نام سے بسائے گئے ایک گائوں (اب تحصیل) ’’ کلّر سیّداں‘‘ میں میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور (1999-1997ء ) میں نیب کے چیئرمین ، سابق سینیٹر سَیف اُلرحمن خان کی ’’ریڈ کو ٹیکسٹائل ملز ‘‘سے "Custom Intelligence" نے 21 پُر تعیش مسافر بردار/ سامان بردار گاڑیاں برآمد کیں ، جِن کاکسٹم ادا نہیں کِیا گیا تھا۔ خبروں کے مطابق ’’ اُن گاڑیوں سے شکار کِیا جاتا ہے اور اسلام آباد میں برادر مسلمان ملک قطر ؔکے سفارتخانہ کی طرف سے ایک خط ؔلِکھ کر حکومت ِپاکستان کو آگاہ کِیا گیا ہے کہ ’’ یہ گاڑیاں قطر ؔکے سابق وزیراعظم شیخ احمد بن جاسم ؔکی ملکیت ہیں اور پاکستان میں قانونی طور پر لائی گئی ہیں! ‘‘۔ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے قطرؔ میں مقیم ، سَیف اُلرحمن خان کا بیان ہے کہ ’’ یہ گاڑیاں میری نہیں ہیں ، قطری ؔ سفارتخانے نے میرے ملز کا "Shed" کرائے پر لے رکھا ہے‘‘۔ معزز قارئین! میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے ہر دَور میں پاکستان اور قطر ؔکے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کا چرچا رہا ۔ قطرؔ کے حکمران ( اور شہزادوں) کو پاکستان میں ’’ خوبصورت ، خوشبودار اور خوش آواز پرندے ۔ تلورؔ کے شکار کا شوق ہے۔ دسمبر 2016ء کے اوائل میں چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر ، وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک نے صوبہ خیبر پختونخوا میں تلورؔ کے شکار پر پابندی لگا دِی تھی لیکن ، اُس کے فوراً ہی بعد وزارتِ خارجہ پاکستان کی طرف سے اُنہیں درخواست کی گئی تھی کہ ’’ یہ پابندی اُٹھا لی جائے!‘‘ پھر کیا ہُوا؟۔ مجھے نہیں معلوم لیکن، مَیں نے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں 14 دسمبر 2016ء کو ’’ قطری شہزادے اور ڈینگی کا شکار‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں تجویز کِیا تھا کہ ’’ کیوں نہ حکومت پاکستان میں شکار کھیلنے کے شوقین قطری ؔشہزادوں کو تلورؔ کے بجائے پاکستان میں ، خاص طور پر پنجاب میں ، مُوذی مچھر ڈینگی ؔ کے شکار کی رغبت ڈالنے کی کوشش کریں ؟۔ مَیں نے تو ، اپنے کالم میں یہ بھی تجویز کِیا تھا کہ ’’ 8 سال سے وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ ’’ چیئرمین کشمیر کمیٹی‘‘ فضل اُلرحمن صاحب اور اتنی ہی مدت سے ’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے چیئرمین محمد خان شیرانی صاحب اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ عبداُلغفور حیدری صاحب کو ساتھ لے جا کر ، جتنی بار چاہیں قطرؔ کا دورہ کریں اور اجتہادؔ کر کے عربی زبان میں قطری شہزادوں کو سمجھائیں کہ’’ وہ معصوم پرندے تلورؔ کے بجائے ، مُوذی مچھر ڈینگی ؔکا شکار کِیا کریں اور ثواب حاصل کریں !‘‘۔ پانامہ لیکس کیس میں ملوث سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز ، دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے حق میں قطرؔ کے سابق وزیراعظم و وزیر خارجہ حمادؔ بن جاسم التہانی کے اُس خطؔ کا بہت چرچا رہا ، جو اُن کے وکیل ، جناب محمد اکرم شیخ کی طرف سے 14 نومبر 2016ء کو چیف جسٹس ، جناب انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے "Larger Bench" میں پیش کِیا تھا۔ ان دِنوں میڈیا پر ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے راہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کا یہ "Informative" بیان نمودار ہُوا تھا کہ ’’جب قطر ؔکا شہزادہ، سپریم کورٹ میں پیش ہو کر وُکلاء کے سوالات کے جوابات دے گا تو اُس کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی!‘‘۔ معزز قارئین! ممکن ہے کہ پاکستان میں عربی زبان کے کسی ماہر ، دوست/ ہمدردنے ، بیرسٹر اعتزاز احسن کے اِس بیان کا عربی زبان میں ترجمہ کر کے ، اُسے دوحہ بھجوا دِیا ہو ، کیونکہ ٹانگوں کی کپکپاہٹؔ کا مسئلہ تھا ؟۔ اُستاد شاعر رندؔ۔ شہزادہ نہیں تھے لیکن، اُنہوں نے نہ جانے کِس مُوڈ میں کہا تھا کہ … مرے بیان کو سُن ، سُن کر ، کانپ اُٹھے! غضب یہ ہے کہ سمجھتا نہیں زبانِ صیادؔ! …O… جناب سیف اُلرحمن نے ، شریف خاندان کے ساتھ قطر کے شاہی خاندان سے تعلقات کے پیش نظر بڑے پاپڑ ؔبیلے کہ’’ قطر ؔمیں کمشن بھجوا کر شہزادہ حضور حماد بن جاسمؔ کے خط کی تصدیق کرا لی جائے ؟ ‘‘ لیکن، سپریم کورٹ کے تو کسی بھی فاضل جج کو ، پاپڑوں ؔ کا شوق ہی نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم قطر ؔ شیخ احمد بن جاسم ؔ تو ’’ بن جاسم‘‘ کے ناتے ( پانامہ لیکس کیس میں مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز کے حمایتی (شہزادہ حماد بن جاسمؔ) کے بھائیؔہوں گے ۔ اب "Custom Intelligence"کے افسران، اُن کے خطؔ کا کیا کریں گے؟ اور میرے دوست ’’شاعرِ سیاست ‘‘ خُود کیا کریں گے؟ کہ جنہوں نے شریف خاندان کی حمایت میں قطری ؔشہزادہ کے خط کے بارے میں عوام و خواص کی خدمت میں یہ ’’ سیاسی ماہیا‘‘ لِکھ کر اپنی جان چھڑالی تھی کہ … شہزادہ قطری ؔ ، اے! اُوہدا خط ، پڑھ تے لَے! اُوہ خط، دو سطری اے! …O… معزز قارئین!۔ سَیف کے معنے ہیں تلوارؔ۔ اُس شخص کو ، جِس کے کلام میں اثر ہو ، اُسے سَیفِؔ زباں کہا جاتا ہے لیکن، قطری ؔ شہزادہ کی صفائی میں تو ، سَیف اُلرحمن وزیراعظم نواز شریف کے دور میں بھی سَیفؔ زبان ثابت نہیں ہُوئے تو ، اب وزیراعظم عمران خان کے دَور میں ( قطر میں مستقل طور پر مقیم ہو کر) کیا کرلیں گے ؟۔ مَیں تو قطریؔ شہزادوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کہ وہ ’’ ایٹمی قوت، اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ‘‘ خوبصورت ، خوشبودار اور خوش آواز پرندے تلورؔ کا شکار کے لئے کیوں آتے ہیں ؟ اور سَیف اُلرحمن خان اور خاندانِ شریفاں ہی کو ان کی میزبانی کا شرف کیوں حاصل ہوتا ہے؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنے دَور میں اپنی ایک نظم ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں کہاتھا کہ… ابھی تک آدمی، صَید زَبوں شہریاؔری ہے! قیامت ہے کہ ، انساں، نوعِ اِنساں کا ، شکاری ہے! …O… یعنی۔ ’’ بیچارہ عام آدمی۔ بادشاہ ہی کا شکار بنا ہُوا ہے اور یہ کتنا درد ناک منظر ہے کہ اِنسان، اپنے ہی ہم جنسوں کا شکار کرتا پھرے؟ (اور یہ کہ حکمرانوں اور سرمایہ داروں نے اِنسانوں ہی کو اپنا نشانہ ستم کیوں بنا رکھا ہے؟)۔معزز قارئین!۔ اُن دِ نوں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے جب یکم فروری 2017ء کو پاکستان تمام نیوز چینلز پر چھ گھنٹے تک یہ خبر چھائی رہی کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے برادر مُلک قطرؔ کے امیر کو پی ۔ آئی ۔ اے کے خصوصی طیّارے C-30 کے ذریعے نایابؔ اور اعلیٰ نسل کا گھوڑا تحفے کے طور پر بھجوا دِیا گیا ہے اور اُس گھوڑے کو قطر پہنچانے کے لئے اُس کے ساتھ طیّارے میں 13 رُکنی وفد شاید (Grooms) کا بھی بھجوایا گیا ہے ۔ پورے 6 گھنٹے تک الیکڑانک میڈیا پر اُس ’’نایاب اور اعلیٰ نسل کے اُس گھوڑے ‘‘ اور جنابِ وزیراعظم اور اُن کے خاندان کے امیرِ قطر اور قطر کے شہزادوں سے دوستانہ تعلقات پر بحث ہوتی رہی۔ 3 فروری کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ "Pakistan`s Horsepower For Qatar!"۔ مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف کا بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی ، امیر قطرؔ اور دوسرے بادشاہوں سے تحفوں کا تبادلہ کرنے سے کیا اُنہیں دُنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ ہوسکتا ہے ؟ ۔ دُنیا کی دوسری بڑی ایٹمی قوت سوویت یونین کے ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ ’’ وہ اپنی تمام ریاستوں کے عوام کے لئے ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ کا بندوبست نہیں کر سکی؟۔ معزز قارئین!۔ مجھے نہیں معلوم کہ ، کیا سپریم کورٹ کے پاس اِتنا وقت ہے یا نہیں ؟ کہ ۔وہ ’’کلر سیّداں ‘‘ میں قطر ؔکے سابق وزیراعظم شیخ احمد بن جاسمؔ کی (برآمدہ) شکاری گاڑیوں کے بارے میں اِس طرح کا فیصلہ کرے کہ ’’ کیا واقعی اُن شکاری گاڑیوں کو ، "Custom" کی ادائیگی کے بعد قانونی طور پر پاکستان میں لایا گیا تھا ؟ ‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ حضرت داغؔ دہلوی کے ساتھ کیا ہُواتھا ، کہ جب اُنہوں نے کہا کہ … بتُوں کے کُوچہ سے ، ہم دِل فِگار، ہو کے چلے! شِکار کرنے کو آئے ، شِکار ہوکے چلے ! …O…