کیا یہ درست ہے کہ آج تک پاکستان کی کوئی قومی سلامتی پالیسی نہیں تھی کیونکہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا کیا جارہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دستاویزی طورپر یہ بیانیہ پہلی بار مرتب کیا گیا ہو۔ چلیے‘ اس بحث کو رہنے دیتے ہیں۔ چند سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے جواب تلاش کرتے ہیں ‘دیکھتے یہ ہیں کہ اس پالیسی کا مقصد اور مطلب کیا ہے۔ اس کا کلیدی نکتہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اب ہماری سلامتی پالیسی کی بنیاد ملک کی معیشت ہوگی۔ دیر آید درست آید۔ کیا یہ ایسی بات نہیں ہے جس پر بہت عرصے سے اصرار کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس کی ضرورت اس قدر محسوس کی جاتی تھی کہ کہا جاتا تھا کہ میثاق جمہوریت کو چھوڑو‘ اب ایک میثاق معیشت طے کرو۔ ایک ایسا معاشی پروگرام جس پر حکومتوں کی تبدیلی اثر انداز نہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ بیانیہ ان لوگوں کا ہے جو حزب اختلاف میں ہیں۔ سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس بات پر ہمیشہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ ملک کے معاشی حالات کے بارے میں کوئی ٹھوس اور مستقل قدم اٹھایا جائے اور اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ یہ نہیں کہ نوازشریف آئیں تو ہم سی پیک کی طرف چل پڑیں اور عمران خان آئیں تو آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے پہنچ جائیں۔ یہ ایک سیدھی سی مثال ہے اور بہت سی مثالیں ہیں۔ بھٹو آئیں تو اشتراکیت کے شوق میں دھڑا دھڑ ہر چیز کو قومیانہ شروع کردیں اور ماضی کی تمام اقتصادی حکمت عملیوں پر پانی پھیر دیں۔ جب سب کچھ لٹ جائے تو دوبارہ نجکاری کی طرف بڑھنا شروع کردیں۔ چھوٹی چھوٹی مثالیں تو بے شمار ہیں۔ ایک حکومت ایک منصوبہ شروع کرے‘ دوسری اسے آ کر ختم ہی کردے۔ یہ تو خیر ایک پہلوہے کہ ہماری معاشی حکمت عملی میں تسلسل ہونا چاہیے مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس کا خیال اب کیوں آیا۔ کیا ہم اپنی سلامتی کے معاملات میں کوئی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خیال مجھے اس لیے آیا کہ ہمارے دوست یہ اعتراض کرتے آئے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست کے بجائے سکیورٹی ریاست بنا کر رکھ دیا ہے اور ہماری ساری برائیوں کی جڑ یہی ہے۔ بنیادی طور پر ہم ایک سکیورٹی ریاست ہی رہے ہیں تو کیا اب ہم اسے اقتصادی طور پر فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہمارے سامنے کیا نقشہ ہے۔ پاکستانی ریاست پر اعتراض یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اسے ہم نے دفاعی معاہدوں میں پھنسا دیا اور انڈیا کا ہوا کھڑا کر کے خود کو امریکی استعمار کا غلام بنا دیا۔ سرد جنگ ہو یا جنگ افغانستان یا اور بھی دوسرے معاملات ہمارا اولین مقصد یہی رہا ہے۔ لیاقت علی خان کے امریکی دورے سے لے کر جو عمل شروع ہوا اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے جنون میں ہم نے باقی ہر بات کو نظر انداز کیا حتیٰ کہ ملک مارشل لائوں کے شکنجے میں چلا گیا۔ یہ سکیورٹی ریاست بنائے جانے کی پالیسی کا منطقی نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت بھی یہاں مضبوط نہ ہو پائی اور ہمارے لیے ملک کی معیشت کی بھی زیادہ اہمیت نہ رہی۔ پہلے فوجی حکمران ایوب خان کے زمانے تک یہ احساس تھا کہ جمہوریت اور معیشت کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ چنانچہ اس وقت ہم نے سکیورٹی ریاست ہونے کے بعد نام نہاد جمہوریت کی بھی داغ بیل ڈالی اور معاشی پروگرام بھی دیا۔ تاہم جب بنیاد ہی کچی ہو تو یہ معاملہ کب تک چلتا۔ پھر وہی ہوا جس کا آغاز جنگ کوریا کے خاتمے کے بعد ہو چکا تھا کہ ہمیں دفاعی امداد تو ملتی رہی مگر ترقیاتی منصوبوں پر توجہ کم ہوتی گئی۔ ضیاء الحق کے زمانے میں امریکہ کو ہماری بہت ضرورت تھی۔ اتنی ضرورت تھی کہ ہمارے وزیر خارجہ نے جب یہ خبر سنی کہ افغانستان میں روسی فوجی آ گئی ہیں تو بے ساختہ اٹھے کہ لو ہمارا مسئلہ حل ہوگیا۔ اس زمانے میں ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا مگر اقتصادی طور پر کوئی معرکہ نہ مار سکے۔ کیونکہ ہماری یہ ترجیح تھی ہی نہیں۔ تو کیا ایک مکمل پیرا ڈائم شفٹ آنے والا ہے۔ خبر یہ تو ممکن نہیں‘ مگر مہنگائی نے یہ احساس دلا دیا کہ معیشت کو سنبھالے بغیر گزار نہیں بلکہ دفاع بھی ممکن نہیں۔ ہمارے بڑے ماہرین معیشت یہ تک کہتے پائے گئے ہیں کہ ہم دیوالیہ ہونے والے ہیں۔ ہمارے پاس تنخواہوں تک کے پیسے نہیں‘ بلکہ یہ کہ ہم اپنی سکیورٹی کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ یہ تو اوپر کی بات ہے‘ نیچے عوام کی سطح تک تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو بلا مبالغہ دو وقت کی بھی روٹی نصیب نہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت کے ترجمان نے اعتراف کیا کہ یہ کام 2014ء میں شروع ہوا تھا اور اب 2021ء میں مکمل ہوا ہے۔ اس میں نو سال لگے ہیں۔ اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ اب یہ اس لیے مکمل ہوا ہے کہ ملک کے قائد عمران خان ہے جو سب کو اکٹھا کرسکتے ہیں۔ کہنے دیجئے اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ان کو سب کے ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ہوتی تو بات ہی کیا تھی۔ اس پالیسی میں اپوزیشن کی شمولیت بھی ہوتی تو کیا اچھی بات تھی تاہم اطمینان ہے کہ جن اداروں نے اس پر کام کیا ہے اس میں نو سال کی جدوجہد شامل ہے۔ یہ کام گویا اس برس شروع ہوا جب عمران خان دھرنا مارے کنٹینر پر چڑھے ہوئے تھے۔ حکومت کو کریڈٹ لینے دیجئے‘ اصل بات یہ ہے کہ اعلان تو ہم بہت کرتے رہتے ہیں‘ عملی طور پر ہم کیا کرنے والے ہیں‘ یہ بات اہم ہے۔ ہم نے چند برس پہلے پورے قومی اتفاق رائے سے ایک ترقی پلان بنایا تھا۔ کیا اس پر عمل ہوا۔ یہ اس کے کچھ نتائج نکلے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ محض ایک پالیسی ہے جسے اقتدار کے مختلف فریق اپنے اپنے انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔ اس نئی پالیسی کے مختلف مطالب نکالے جا سکتے ہیں۔ فی الحال آپ صرف اتنا سمجھیں کہ ملک کی سلامتی کی بنیاد مضبوط معیشت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس طرف سفر نہیں ہورہا تو پھر کیا کیا جائے۔ کون ہے جو گاڑی کا رخ درست سمت موڑے گا اور اس کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ یہاں اگر سوال اٹھانے بیٹھ جائیں تو بہت سے نازک سوال اٹھ سکتے ہیں۔ تاہم ایک بات کہ ہمیں ہر صورت کرنا ہوگی کہ ملکی معیشت کو درست سمت کھڑا کرنا ہو گا اور اس کے لیے حدود و قیود وضع کرنا ہوگی۔ سیاست ہی نہیں اندرونی اور بیرونی سلامتی کے تقاضے سب اس حوالے سے ہوں گے حتیٰ کہ خارجہ پالیسی بھی۔ اب تک ہم نے ہر معاملے کو خراب کیا ہے۔ مزید کی گنجائش نہیں ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم اقتصادی طور پر خوشحال بھی نہ ہو‘ خودمختار بھی ہوں۔ ہم اگر اپنی معیشت کو گروی رکھ دیں گے تو اپنی سلامتی کو بھی گویا سودا کریں گے۔ ہماری سلامتی بھی خود مختار ہو اور ہماری معیشت بھی۔ غلام قوموںکو آزادی ملتی ہے نہ خوشحالی۔ ایک بات اور عرض کروں کہ اس بات کا خیال رہے کہ اس اصول کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے وجود کے دوسرے تقاضے بھول جائیں۔ ایک فقرے میں عرض کروں تو یہ کہوں کہ آدمی محض پیٹ کی خاطر نہیں جیتا ہے۔ اپنی روح کی آبیاری کا بھی بندوبست کیجئے۔ مجھے یہاں رک جانا چاہیے‘ آگے بہت سے نازک موڑ آتے ہیں۔ ذرا سستا لیں‘ دم لے لیں تو آگے چلتے ہیں۔ ابھی دیکھنا ہوگا کہ ہم اس پالیسی کا مطلب کیا سمجھتے ہیں۔ نااہل لوگوں کے ہاتھ میں تو سونا بھی مٹی بن جاتا ہے۔ آئیے مٹی کو سونا بنانا سیکھیں۔