میں نے 1971ستمبر کے آخری دنوں میںیا اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اسلام آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1974 میں بھی چند ماہ گزارے مگر میرا سیشن 1971-73 ہی تھا۔اس وقت کے واقعات پر غور کرتا ہوں تو عجیب سا لگتا ہے ۔ہر چیز بدل گئی ہے۔نہ وہ طالب علم رہے نہ ویسے استاداور نہ ہی ارد گرد کے حالات میں کوئی مماثلت نظرآتی ہے۔ان دنوں یونیورسٹی ہولی فیملی ہسپتال کے دائیں بائیں اور کہیں ارد گردکئی جگہ پر ہوتی تھی۔ ایک دو گھروں میں ہوسٹل بھی وہیں تھے۔ ہر ڈیپارٹمنٹ وہاں کی کسی کوٹھی یا کسی گھر میں نظر آتا تھا۔وہاں کا ماحول بڑا سہما سہما؎، کچھ اداس ۔ ٹیچر کا کہیں سے گزر ایسے ہی تھا جیسے کوئی جن گزر جائے۔ ان ٹیچروں کا دبدبہ بھی بہت تھا۔وقت ضائع کرنے کا تصور ہی نہیں تھا۔وہ گھر جس میں ریاضی کا شعبہ تھا،اس کی شاید اوپری منزل پر لائبریری تھی۔ آئو تو سیدھا کلاس میں ، اور اگر کلاس نہ ہو رہی ہوتی تو لائبریری میں ۔امان کی کوئی تیسری جگہ اس یونیورسٹی میں نہیں تھی۔ لائبریری میں اونچا بولنا یا فارغ بیٹھنا بھی جرم تھا۔استاد محترم ڈاکٹر کیو کے غوری ریاضی کے ہیڈ تھے۔ ان کی دور سے شکل نظر آتی تو طالب علموں کے ہاتھ کانپنے لگتے۔حالانکہ غوری صاحب کچھ نہیں کہتے تھے۔ درمیانہ قد، منحنی سے، د بلے پتلے، ہر وقت سوٹ میں ملبوس ، مسکراتے ہوئے آتے، تھوڑے تیز لہجے میں بات کرتے۔ جو بیچارہ فارغ بیٹھا ہوتا، وہ قابو آ جاتا تو بڑے پیار سے وہ اخلاقی مار دیتے کہ بندہ ان سے جان چھڑا کر جب واپس آتا تو محسوس ہوتا کہ صدیوں کے گناہوں سے توبہ کرکے لوٹا ہے۔ وہ بچوں کار ویہ بدل دیتے تھے۔ویسے غوری صاحب کمال کے استاد تھے۔ کلاس میں ہوتے تو ایک ساحر کی طرح، پوری کلاس کو اپنے الفاط کے جادو میں باندھ لیتے۔ان کا ایک ایک لفظ سماعتوں سے کھیلتا ذہن میں اتر جاتا۔ ایسے شاندار اور محنتی استاد اب نہیں ملتے۔ میں آج بھی ان کا شاگرد ہونے پر فخر ہے۔ 1971 کی جنگ سے چند دن پہلے ہم نئے کیمپس میں شفٹ ہو گئے۔نیا کیمپس بہت بڑا اور بہتر تھا مگر آج کے کیمپس کے مقابلے میں بالکل ننھا منا،بس یو ں سمجھیں کہ 71 کی جنگ ہم نے نئے کیمپس ہی میں لڑی۔ یونیورسٹی نے خندقیںکھدوا دی تھیں کہ سائرن ہو تو بھاگ کرکسی خندق میں پہنچ جائو۔چنانچہ ہم ایسا ہی کرتے مگر چند زندہ دل بستر لے کر وہاں جاتے اور کہتے کہ واپسی کا سائرن سن کر مجھے اٹھانے کی کوشش نہ کرنا۔ میں صبح جب آنکھ کھلے گی تو خود ہی آ جائوں گا۔ان دنوں یونیورسٹی میں سانپ بہت تھے۔چپے چپے پر سانپ مگر وہ بے فکر لوگ کسی چیز کی کب پرواہ کرتے تھے۔ہم ارد گرد نظر ڈال کر ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ واپس آ جاتے۔ صبح ان سے ملاقات ان کی سلامتی کا پیغام ہوتی۔ ہم جو لاہور کے مکین تھے، چھٹی سے پہلے آخری دن کلاس ختم ہونے پر لاہور کی طرف یوں بھاگتے جیسے کوئی رسی توڑ کر بھاگتا ہے۔یونیورسٹی کی صرف ایک ہی بس تھی جس کا ڈرائیور لمبی لمبی مونچھوں والا سعید خان تھا اوکلینرشبیر۔کافی ماہ بعد دوسری بس آئی جس کا ڈرائیور محرم تھا، کلینر کا نام مجھے یاد نہیں۔ بس تھوڑے تھوڑے وقفے سے آبپارہ اور کیمپس کے درمیان چکر لگاتی جو ہمارے لئے آنے جانے کا واحد وسیلہ تھا۔ بس کا راستہ اس قدر ویران کہ کوئی چیز نظر نہ آتی۔ ایک واحد روسی سفارتخانے کی عمارت تھی جو زندگی کے آثار کا پتہ دیتی تھی۔ بس کے انتظار میں لوگ ایک طرف یونیورسٹی کی ایک گرائونڈ میں کھڑے ہوتے اور دوسری طرف یونائیٹڈ بیکری کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوتے ۔ سیڑھیوں کے سامنے اومنی بس کا بڑا پر رونق اڈا ہوتا تھا جو اب مکمل ویران ہے۔سرکاری بسیں سرکار کے بندے کھا گئے۔ یونیورسٹی میں ہم بس کا انتظار کرتے ۔اگر بس کا ٹائم نہ ہوتا تو گپیں لگاتے دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر بری امام پہنچ جاتے جہاں پرانے وقتوں کی قدیم عملاًناکارہ ٹوٹی پھوٹی ویگنیں ہما وقت آبپارہ جانے کو تیار ہوتیں۔ وہ ویگنیں اس قدر خراب تھیں کہ پڑھتے یا اترتے کسی ایک کی جیب ہلاک ہو جاتی کہ لوہے کے کانٹے جگہ جگہ ابھرے ہوتے۔ جب کبھی یہ حادثہ ہوتا تو کنڈکٹر کی آواز آتی ۔دھیان سے جی دھیان سے۔ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔پھٹے کپڑوں میں آبپارہ پہنچنا اور سامنے اومنی بس، دس پیسے میں لیاقت باغ اڈے اور وہاں سے سات روپے میں لاہور۔ ریل کار کا کرایہ بھی تقریباً سات روپے تھا۔ لیکن لاہور سے واپسی پر ہمارے پاس دو طریقے تھے۔ یا تو ساری رات پسنجر ٹرین میں سو کر سفر کریں یا بہت صبح کچھ وقت بس میں سفر کے بعد راولپنڈی پہنچ جائیں۔ پسنجر ٹرین میں سکینڈ کلاس کا کرایہ گیارہ روپے تھا مگر تھرڈ کلاس سے کافی باعزت۔لکڑی کے تختوں کی بجائے فوم کی سیٹیں، رش بھی کم۔ ہم سیکنڈکلاس کا ٹکٹ لیتے اور دس بجے ٹرین چلتی تو ہم مزے سے سو جاتے۔ صبح تھوڑی سی روشنی ہونے کا مطلب تھا کہ روات آنے والا ہے۔ ہم روات پر سامان اٹھائے سڑک پر آ جاتے۔پسنجر ٹرین صبح نو بجے راولپنڈی پہنچتی تھی مگر ہم بس پر سات بجے تک لیاقت باغ ہوتے اور پھر آگے وہی دس پیسے اومنی بس کے اور پھر فری یونیورسٹی بس۔ ہم مزے سے وقت پر کلاس میں ہوتے۔ جب کبھی ہمیں بس میں آناہوتا، ہم صبح پانچ بجے بس میں سوار ہوتے۔ وقت آج سے بہت بہتر تھا۔پیر کے دن بس جب مریدکے پہنچتی تو وہاں سے ایک بزرگ آدمی اچکن پہنی ہوئی، ہاتھ میں ایک بریف کیس نما بیگ۔ مسکراتے ہوئے بس پر چڑھتے۔ ہم سفر ہونے کے ناطے ان سے اچھی علیک سلیک تھی۔ ہم بڑے اہتمام سے انہیں ساتھ بٹھاتے اور خوب گپ شپ کرتے ۔ وہ سادہ دل شخص اس علاقے کا ایم این اے تھا، شاید وکیل نام تھا۔ترقیاتی کاموں کے نام پر بڑی بڑی رقمیں وصول کرنے اور اس میں اپنے حصے کی ناجائز کمیشن وصول کرنے کی روایت ابھی شروع نہیں ہوئی تھی ورنہ یہ لوگ بس ہمارے جیسے ہی تھے، حرام کاری کی ان موٹی رقموں کا کمال ہے کہ اب یہ بڑی گاڑیوں سے نیچے نہیں اتر سکتے ۔ترقیاتی کاموں کے نام پر اگر یہ کام نہ ہوا ہوتا تو موجودہ منتخب حضرات بھی شایدہمیں اسی طرح کسی بس میں سفر کرتے نظر آ جاتے۔مگر وقت ہی نہیں، ہر چیز ٍبدل گئی ہے۔اب نہ وہ وقت واپس آ سکتا ہے ، نہ وہ بندے اور نہ وہ کردار۔