وٹہ سٹہ کی شادی مبینہ طور پر دو خاندانوں کے ایک بہن/بھائی بیٹا/بیٹی کی شادی دوسرے خاندان کے بہن/بھائی بیٹا/بیٹی سے تبادلہ میں کر دی جاتی ہے۔ انسانی تاریخ کے ابتدائی دور سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریک حیات کے انتخاب کی طویل روایات موجود ہیں، جہاں اس کے کچھ سنگین اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ قدیم معاشرے میں تین طریقوں سے شریک حیات کا انتخاب ہوتا تھا، جہاں خواتین کو اغواء کیا جاتا تھا، اسکے علاوہ انکو حاصل کرنے کے لیے لڑائی جھگڑے کیے جاتے تھے اور خواتین کا وٹہ سٹہ بھی ہوتا تھا۔ قدیم معاشروں میں وٹہ سٹہ کے ذریعے شادی کرنے کو بہت تہذیب یافتہ عمل سمجھتا جاتا تھا۔ سن 1950ء میں، فرانسیسی معاشرے کے سائنس دان نے یہ انکشاف کیا کہ وٹہ سٹہ کی روایات شمالی اور جنوبی برصغیر ہند، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور افریقہ کے کچھ براعظم میں رائج تھیں۔ پیئر بورڈیو اور فرانسیسی سائنسدان تھا جس نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ یہ روایات عرب اور افریقن ممالک میں بھی پائی گئیں۔ مزید برآں چائنہ اور جاپان میں بھی وٹہ سٹہ کی شادی ہوتی رہی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ وٹہ سٹہ کی شادی عالمی روایات میں سے ایک تھی جس سے تقریبا ہر معاشرہ گزرا ہے۔ تاہم، یہ روایت ابھی بھی دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے اور پاکستان اس سے متشنی نہیں ہے۔ ورلڈ بینک کی 2005ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 35 فیصد شادیاں وٹہ سٹہ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کی شادیاں اپنی نوعیت کے مطابق ہوتی ہیں۔تقریباً 70 فیصد شادیاں خاندان کے اندر طے پاتی ہیں جبکہ پاکستانی معاشرے میں خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج بہت کم پایا جاتا ہے۔ بیشتر خاندانوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادی خاندان میں ہی کریں۔ پاکستان میں زیادہ تر یہ روایات جنوبی پنجاب، اندورن سندھ، بلوچستان کے کچھ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے کچھ حصوں میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اس ثقافت کو مجموعی طور پر "وٹہ سٹہ" کہتے ہیں، عربی زبان میں اسکو "شغر" کہتے ہیں اور پشتو زبان میں "ادل بدل" کہلاتا ہے۔ دو اور طرح کی روایات بھی پاکستان میں موجود ہیں جنکو وانہ (شادی کا معاوضہ) اور ساوا (دلہن کی قیمت) کہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تینوں روایات اپنے کام اور فطرت میں تقریباً یکساں حثیت رکھتی ہیں۔ حقیقت میں یہ رواج عورتوں کے تبادلے پر ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس رواج کے مصائب سے کوئی بھی جنس متثنٰی نہیں ہے۔ میں نے اپنی تحقیق و مشاہدات سے یہ جانا ہے کہ پاکستان میں خواتین شادی کے نظام میں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں، اسکے برعکس اس روایت کی اپنی اخلاقی معاشی حیثیت بھی ہے جہاں لوگ مشکل سے ہی خود کو نکال پاتے ہیں۔ اگر کوئی وٹہ سٹہ کی شادی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ مجموعی طور پر اپنی روایات سے انحراف کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اکثر معاشروں میں اس کو اخلاقیات کی خلاف ورزی کے مترادف بھی سمجھا جاتا ہے۔ خاندان میں شادی کا رجحان اس لیے بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر خاندان میں شادی ہوگی تو اس سے خون میں پاکیزگی برقرار رہے گی۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر خاندان میں شادی کی جائے تو انکے خونی رشتے انکی مدد کو ہر وقت تیار رہیں گے۔ عام طور پر لوگ اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں اور انکے خیال کے مطابق اگر خاندان کے لوگوں سے اچھے تعلقات استوار رکھیں گے تو دونوں خاندانوں کو اس میں فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں تقریباً 75 فیصد لوگ خاندان کے اندر شادی کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں 19 فیصد لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وٹہ سٹہ کی شادی انکے چچا زاد میں ہو۔ ان نتائج سے یہ بات تو واضح ہے کہ وٹہ سٹہ کی شادی معاشی فائدے کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔اگر اس رواج کو معاشی نظریے سے پرکھا جائے تو یہ غریب لوگوں سے زیادہ منسلک ہے۔ یہ غربت ہی ہے جو انکو وٹہ سٹہ کی شادی کرنے پر مجبور کرتی ہے جسکی وجہ سے خاندانوں پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ اس رواج میں، جہیز و دلہن کی قیمت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ جو ضروری عمل ہے وہ وٹہ سٹہ کی شادی ہے جہاں پر لڑکیوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اسکی وجہ سے انکو سنگین معاشی و اقتصادی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لوگوں کی ذرائع آمدن اور تبادلہ کی شادی میں ہمشہ سے تعلق پایا گیا ہے، جہاں وٹہ سٹہ کی شادی میں غربت کہ اثر انگیز عنصر پائے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے پاس زمین موجود ہوتی ہے وہ لوگ ہی اپنے بچوں کی وٹہ سٹہ کی شادی کرواتے ہیں۔ جہاں خاندان کے اندر شادی کرنے سے انکی زمینیں محفوظ رہتی ہیں اور رشتہ داری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں وٹہ سٹہ کی شادی مضبوط ازدواجی تعلقات کو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ ہے جس سے خاندانوں کا نظام مضبوط ہوتا ہے۔ اپنے کی خاندان میں شادی کا عمل شادی کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھتا ہے جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ مستحکم زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جو پاکستانی معاشرے میں وٹہ سٹہ کی شادی کرنے والوں کو جانب سے دین جاتی ہیں۔ اسکے برعکس، وٹہ سٹہ کی شادی ناکامی کا بھی باعث بنتی ہیں، یہ روایت پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں برقرار ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب وٹہ سٹہ کی شادی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ تبادلہ کی شادی کے رجحان میں کمی اس تصور کو تقویت بخشتا ہے کہ اس سے شادیاں کامیاب نہیں ہوتیں۔ میری تحقیق جسکا عنوان "جنوبی پنجاب میں وٹہ سٹہ کی شادیاں" تھا، اس تحقیق کا بہت سا کام مختلف بین الاقوامی جنرل میں چھپ چکا ہے جبکہ اسی عنوان پر ایک کتاب بھی شائع کی جا چکی ہے جس نے ملک میں ایک نئی بحث کو ہوا دی ہے۔ مختصراً، اگر پاکستان کے مختلف علاقوں میں کوئی اس روایت کو ترک کرنا چاہتا ہے تو اسے اخلاقی طور پر گرا ہوا شخص مانا جاتا ہے۔ ہر قسم کی تہذیب و روایات مقامی اخلاقیات میں پیوست ہو جاتی ہیں جس سے اخلاقی معشیت کے بنیادی عناصر وجود میں آتے ہیں۔ وہ لوگ جو ثقافتی نظریات پر یقین رکھتے ہیں ان لوگوں کو یہ عام نظریات و اخلاقی اقدار اپنی وراثت میں ملے ہیں۔