وکٹرہیوگو نے کہا تھا ستاروں کی طرح قوموں کو بھی گرہن لگتا ہے۔ بڑی بات نہیں۔انہونی بات یہ ہے کہ گرہن کے بعد روشنی واپس نہ آئے۔پاکستان کی 77 سالہ تاریخ نشیب وفراز سے عبارت ہے۔ مملکت خداداد جمہوری طریقہ کار کے تحت وجود میں آئی مگر بانی پاکستان کی ناگہانی وفات کے بعد غیر جمہوری قوتوں نے سازشیں شروع کیں اور جمہوریت کو نومولود مملکت میں جڑیںہی نہ پکڑنے دیں۔ قائد کے ساتھیوں اور غیر جمہوری قوتوں کی کشمکش 1958ء میں آمریت کے گرہن پر منتج ہوئی۔ آمر نے کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کا ڈھونگ رچا کر عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی مگر عوام کی خواہشات کو طاقت سے دبانے کی ضد نے ملک دولخت کر دیا۔1971ء میں عوام کی خواہش کی روشنی آمرانہ گرہن پر غالب آئی اور ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کے استحکام کے لئے جمہوری قوتوں کو ایک میز پر بٹھا کر ملک کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا۔ پاکستان کو جوہری قوت بنانے کے کٹھن کام کا آغاز کیا اور عالمی سازش اور اپنوں کی عاقبت نااندیشی کا شکار ہوگئے ایک بار پھر عوام کی خواہشات کے برعکس ملک چلانے کے لئے اسلامی نظام کا دھوکہ دیا گیا اور قوم کو 90دن میں الیکشن کروانے کے وعدہ کو سچ ہوتے دیکھنے کے لئے ایک دھائی انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران آمر کی چھترچھایا میں جمہوریت کا ڈرامہ بھی رچایا گیا مگر بینظیر کی وطن واپسی کے وقت عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ آمر قدرت کے انجام کو پہنچا عوام کو اپنا مقدر خود لکھنے کا موقع ملا جمہوری عمل کا آغاز ہوا۔ مگر اس جمہوری دور کو ہنری اے والیس کے بقول فاشسٹ کہنا غلط نہ ہو گا۔ والیس نے فاشسٹ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ فاشسٹ وہ ہوتا ہے جس کی دولت اور اقتدار کی ہوس دوسری نسل تک جا پہنچے۔اقتدار کی ہوس کی وجہ سے عدم برداشت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ دوسری نسل کو بے رحم اور دھوکہ باز بنا دیتی ہے۔دو خاندانوں میں اقتدار کی رسہ کشی نے ملک میں جمہوری اقدار اس حد تک پامال کیں کہ 1998ء میں جمہوریت حکومت کے خاتمے اور آمر کے جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے پر عوام نے چوک چوراہوں میں مٹھائیاںتقسیم کیں۔ یہاںسے پاکستان کو ایک نئے گرہن اور المیہ کا سامنا ہوا۔ وہ ایرک ہوفر نے کہا ہے نا ! کہ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ ہم پڑھانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ہمارے پاس سیکھنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ مشرف کے بعد ایسا جمہوری تماشا لگا کہ بحرانوں نے خوابوں کے پیچھے بھاگنے والی قوم کو بیدار کیا۔ پاکستانی سیاسی دورکی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں حقیقی سیاسی اور جمہوری پراسس کے نہ پنپ سکنے کے نتیجے میں کوئی حقیقی قومی لیڈر شپ نہیں اْبھر سکی، بلکہ یہاں قوم کو منصوبہ سازوں نے کھلونوں کی طرح سیاسی لیڈر فراہم کیے۔ پھر جب کبھی قوم سے وہ کھلونا لے کر دوسرا کھلونا دینے کی کوشش کی گئی تو جیسے بچے سے زبردستی کھلونا چھینا جائے تو چھیننے والے کو بچے کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے ہی ہمارے منصوبہ سازوںکو کئی بار ایسے غصے اور مزاحمت کا سامنارہا۔ ہماری سیاسی رجیم میں موجود پارٹیاں اور ان کی لیڈرشپ، جو بڑی شدومد سے ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، نہ ان کی پارٹیوں میں جمہوریت پنپ سکی اور نہ ہی ان کے اپنے رویے جمہوری رہے، بلکہ اس ملک کے سیاست دان نے خود منصوبہ سازوں کے ساتھ مل کر اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر کئی بار جمہوریت کو اپنے ہاتھوں قتل کیا۔ ملک کو اقتدار کے پجاریوں کے چنگل سے آزاد کروانے کے لئے ملک میں تیسری سیاسی قوت کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور نتیجتاً 2013ء میں تحریک انصاف ابھری اور 2018 ء میں تحریک انصاف کو عروج اور اقتدار ملا ۔ تیسری قوت کے اقتدار میں آنے کے بعد قوم چوروں لٹیروں اور مافیاز کے احتساب کا انتظار کرنے لگی۔ عمران خان این آر او نہ دینے کی رٹ ہی لگاتے رہ گئے اور سٹیٹس کو کے پجاریوں نے ڈیل کر کے عمران خاں کو ہی انصاف اور احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ پاکستانی سیاست میں اس انہونی کے بعد پاکستانی بالخصوص نوجوان مزاحمت پر اترے آئے۔ پاکستان کی نوجوان نسل نے عدالتوں میں کالے کو سفید اور سفید کو کالا ہوتے دیکھا تو نظام عدل سے مایوسی بڑھنے لگی اس کے بعد وہی ہوا جس کی کسی کو بھی توقع نہ تھی۔جوز رجال نے کہا ہے انصاف مہذب قوموں کی پہلی خوبی ہے جبکہ ناانصافی کمزور کو جگاتی اور بغاوت کی راہ دکھاتی ہے۔ نتیجہ سانحہ 9مئی کی صورت میں نکلا۔ اچھا یہ ہوا نئی نسل کو غلطی کے بعد ہی احساس ہو گیا کہ ریاست سے ٹکرانا خودکشی ہو گی اس لئے وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ کا نعرہ لگا کر انتخابات کا انتظار کرنے لگی۔ پاکستانی نوجوان نے سٹیٹس کو کے نمائندوں کی ڈیل ، انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف سے امتیاز ی سلوک اور برق رفتار ’’انصاف‘‘ کے خلاف مزاحمت کے بجائے ’’ووٹ‘‘ سے بدلہ لینے کے لئے انتظار کی پالیسی اپنائی۔ اب قوم ووٹ کا حق استعمال چکی چند روز میں قوم کے مستقبل کا فیصلہ کی رسم بھی ادا کر دی جائے گی۔ ملک کے دانشور فیصلے کے بارے میں پہلے ہی پیش گوئیاں کر چکے ہیں کہ ایک بار پھر کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کا تجربہ دھرایا جائے گا۔ ممکن ہے اس بار بھی پاکستانیوںکو جمہوریت کی روشنی آدھے گرہن کی صورت میں ہی نصیب ہو مگر امید زندہ کہ جمہوری پریکٹس سے ہی کنٹرولڈ جمہوریت کے گرہن کے فلٹر ہٹنا شروع ہوں گے اور ایک دن جمہوریت کا سورج پوری آب وتاب سے پاکستان چمکے گا۔