وہ لوگ جو سیاست اور سماج پر لکھتے ہیں۔۔اُن کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ انہیں اکنامکس کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ہوتی ہے تو اکنامکس کی مونٹیسوری یا کے جی ون جتنی۔ہماری ایک پنڈت جنہوں نے میری طرح اکنامکس گریجوایشن لیول تک بطور مضمون پڑھی ہو گی،اکنامکس اس طرح سمجھاتے ہیں جیسے پروفیسرز۔بہر حال اکنامکس کو سمجھنے اور سمجھانے والے ایک جرنلسٹ خُرم حسین ہیں جو لکھتے تو انگریزی میں ہیں مگر عام آدمی کی زبان میں اکنامکس اس طرح سمجھاتے ہیں کہ مشکل ترین بات بھی آسان ترین انداز میں دل میں اُتر جاتی ہے۔اِسی نوع کے ایک صحافی اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے۔اسلام آباد کے نبض شناس حلقوں میں چائے کافی پر اپنے پیٹی بھائیوں سے اندر کی باتیں بھی نکال لاتے ہیں مگر کوہسار مارکیٹ میں نہیں۔اُن کے مطابق بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کا حل یہ تو نہیں کہ بلوں کی قسطیں کر دی جائیں،یا اِن بلوں پر کوئی سبسڈی دے دی جائے۔اُن کے مطابق اِ س کا حل بہت آسان ہے مگر اسے نافذ کرنا ناممکن ہے۔لیسکو کی بجلی چوری کی جو لاگت ہے وہ1464ارب روپے ہے۔اُسے عام صارف کی طرف منتقل کرنا بند کر دیا جائے۔بہت سارے ایسے دھانسو گھریلو صارفین اور طبقات ایسے ہیں جو بِل سِرے سے دیتے ہی نہیں۔اُ ن کے بلوں کا بوجھ عام صارف کو شفٹ کرنا بند کر دیں۔ہماری اِس زندہ اور پائندہ قوم میں بہت سے ایسے طبقات،ادارے اور لوگ ہیں جو بِل ہی ادا نہیں کرتے۔اُن سے بھی بِل لے لیں۔مقدس لوگوں کو کہیں کہ وہ بجلی کا بِل ادا کریں۔اس سے دھوپ میں جلتے عام آدمی اور بے اختیار مڈل کلاس کو احساس ہوگا کہ ہم اکیلے نہیں ۔مگر جب دُکھ جھیلیں 95فیصد اور انڈے کھائیں 5فیصدتو،اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ عمران خان کے عہد میں40رُکنِ قومی اسمبلی۔۔ان میں نون۔۔جنون اور جیالے سبھی قسم کے عوامی نمائندے تھے،یہ سب شاہ محمود کے پاس آئے جو کہ فیڈرل منسٹر تھے۔کیوں؟ملتان کے ایک طاقتور جاگیر دار کوFBRنے نوٹس بھیجا تھا کہ صاحب آپ ٹیکس ادا کریں۔یہ جاگیردار ملتان کا ایک بااثر سیاستدان تھا۔ ٖFBRمجبور ہو گئی،ٹیکس نوٹس واپس ہو گیا۔ کے پی کے میں تمباکو انڈسٹری ٹیکس نہیں دیتی۔FBRکے ایک چیئر مین نے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی۔چیئر مین کو نصیحت کی گئی کہ یہ حماقت نہ کرنا کہ اس انڈسٹری کے تمام چہرے۔۔سیاست مافیا کے گاڈ فادرز ہیں۔اگر تم نے یہ پٹاری کھول دی تو سانپ،اژدھا اور کالے ناگ باہر آ جائیں گے۔خیال رہے کہ یہ عہد بھی اُس کا تھا جو کہتا تھا کہ چوروں اور ڈاکوئوں کو گریبان سے پکڑوں گا مگر تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔اب یہ ہے کہ سارا بوجھ95فیصد پر ہے ۔۔صرف5فیصد کے لیے۔آپ کسی بااثر ادارے کے کارپوریٹ مفادات دیکھیں۔پھر آپIMFکی شرائط ملاحظہ کریں۔وہ کہتے ہیں اپنے ٹیکس نیٹ کے دائرے کو بڑھائو۔یہ جابر لوگ کیا کرتے ہیں؟یہ گھوم پھر کر سارا بوجھ تنخواہ دار اور دیہاڑی دار پر ڈال دیتے ہیں۔آئیے ایک اور سُرخ و سپید کلاس پر نگاہ ڈالیں۔یہ ہے تاجر طبقہ،ٹریڈنگ کلاس،جن میں انجمن تاجران ٹائپ کے لوگ ہوتے ہیں۔لبرٹی سے لاہور تک،سپر مارکیٹ سے جناح سپر تک اور ہر مارکیٹ سے ہر مارکیٹ تک یہ ٹیکس بالکل ادا نہیں کرتے۔ٹھہریں۔میں بھول گیا برساتی مینڈکوں جیسی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو۔میں جب بھی زمان پارک سے گزرتا تھا،ایک باریش صاحب کے بڑے بڑے بِل بورڈز،عمران کی شان،تیری آن۔۔میری آن لکھے ہوتے تھے۔اب پھر دوبارہ گزرا تو بورڈ وہی تھا،نیچے تصویر بھی اُسی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک کی تھی۔بس پارٹی اور نعرے حیران کُن حد تک بدل چکے تھے۔پہلے وہ انقلاب لا رہے تھے ۔ اب وہ فرما رہے ہیں____قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے،خیرات کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے بورڈز،نئے نئے بینرز اور نعرے ایجاد کرتے ہیں۔ہر طاقتور کو سیلوٹ،No Tax،Noقانون، عام آدمی کا استحصال کرو اور بااختیار کی خوشامد۔مفتاح نے اپنے دور میں تاجروں اور ٹریڈرز پر ایک ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی۔مریم کے ایک ٹویٹ نے وہ ٹیکس واپس لینے پر مجبور کر دیا شہباز حکومت کو۔ڈار ڈالر نے اِس معیشت کی کمر توڑ دی،مریم اور نواز شریف بانسر ی بجاتے رہے۔عمران کے دھرنوں نے2014ء میں اس معیشت کے ساتھ جو کیا وہ ایک کتاب کا سامان ہے۔عجیب داستاں ہے یہ۔۔کہاں شروع کہاں ختم۔۔نہ سمجھ سکیں ہیں ہم۔۔نہ سمجھ سکو گے تم۔طاقتور ترین تھوڑے سے لوگوں کا جن جپھا ہے۔یہ سب ملک تڑوا سکتے ہیں،اِسے دیوالیہ کروا سکتے ہیں،اِ س کے عوام کو خودکشیوں پر مجبور کر سکتے ہیں مگریہ دست بردار نہیں ہو سکتے اپنے قبضے سے۔ یہاں تک لانے کا سہرا کرپٹ اشرافیہ کا ہے جو رینٹ اے اکانومی کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ہمارے کسی بھی فیصلہ ساز کی ترجیح عوام نہیں۔قبضہ اُن کا ہے جو کہتے ہیں روٹی نہیں تو کیک کھا لو۔ضرورت ہے اس سارے سسٹم کو ادھیڑ کر نئی عمارت بنانے کی۔ہماری اکانومی غیروں کی مدد پر کھڑی ہے۔ہم بھیک مانگتے ہیں اور پھر اُس بھیک کو کرپشن میں اُڑا دیتے ہیں۔آپ سرکاری اداروں کی گاڑیاں دیکھیں،اُن کے دفتروں میں جائیں،وہاں کےACدیکھیں،اُن کے لنچ،اُن کیHi-Teaاورٹی بریک دیکھیں۔آپ کبھی نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے۔دوسری جانب کوئی بیٹی کا جہیز بیچ کو بِل ادا کر رہا ہے،کوئی کچھ اور بیچ کر۔کوئی مرتا ہے مرے،کوئی خودکشی کرتا ہے کرے۔ایک پنڈت کہنے لگے کہ بجلی کے بِل میں اتنے ٹیکس ہیں کہ لگتا ہے فرعون نے اپنی رعایا کو سزا دی ہے۔پرانے دور میں ایک صاحب جب چاہتے مال روڈ پر ایک بینر لگا دیتے۔سُرخی ہوتی۔۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟مگر اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کے خلاف،کس سے اپیل کریں؟۔ہوتا ہے تیرے شہر میں پتھروں کا کاروبار،ہم بدنصیب ہیں کہ ہم آئینہ ساز ہیں۔