نہ خوشی ہے میری خوشی کوئی نہ ملال میرا ملال ہے مری بے حسی ہے کمال کی نہ عروج ہے نہ زوال ہے میں اڑان میں بھی اسیر ہوں کہ قفس ہے میرے دماغ میں میں رہا بھی کیسے ہوا کہ اب مرے ساتھ ساتھ ہی جال ہے موجود کی حشر سامانی نہیں دیکھی‘ سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔وہی جملہ کہ جو ناصر ادیب نے کہا تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے ہم ایک قوم تھے جسے ایک ملک کی تلاش تھی اور اب ہم ایک ہجوم ہیں اور ہمیں قوم کی تلاش ہے۔ اب جو بات کرنے میں جا رہا ہوں وہ سنجیدگی سے سوچنے والی ہے کہ امت ملت یا قوم کا تصور آخر کیا ہے۔یقیناً ایک فرد کی اپنی اہمیت ہے اور پھرافراد کے اجتماع سے معاشرہ ترتیب پاتا ۔ امت ملت یا قوم یا پھر معاشرہ افراد کا اجتماع جس کے کچھ بنیادی اصول روایات یا اقدار ہوتی ہیں ان کے بننے میں رنگ نسل زبان یا وطن بنیاد بنتا ہے آپ وطن کو اس ضمن کی آخری کوشش سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے اسلام بھی اس ضمن اپنی پہچان اور شناخت رکھتا ہے اور وہ ان تمام لوازمات اور اسباب سے بالاتر ہو کر اپنا مطالبہ رکھتا ہے۔وہ رنگ و بو اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر بات کرتاہے کہ یہاں امت کا تصور انسان اور انسانیت پر مدار کرتا ہے کہ سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اسلام کا مخاطب حضرت انسان ہے اسے گروہوں میں بانٹا نہیں جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں آفاقیت ہے۔اس بات کا مولانا مودودی نے نعیم صدیقی صاحب کی سیرت پر کتاب محسن انسانیت کے دیباچے میں ذکر کیا تھا کہ انسان جتنی بھی چھلانگیں لگا لے عقل کے گھوڑے دوڑا لے مگر اس کی صلاحیتوں کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہے اور پھر اس کے بعد جب وہ بے بس ہو جاتا ہے تو وہاں اس کی جستجو اور سعی کے بعد وحی آتی ہے کہ یہ پردے کے اس طرف کی بات ہے۔ خالق کا مخلوق سے معاملہ ہے وہی جو ملٹن نے پیراڈائز لاسٹ میں کہا تھا کہ اللہ اور انسان کے درمیان راستے کوئی پیغمبر جوڑتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے ایک اور بات سوچیے مثلاً کوئی جاپانی ہے تو کوئی امریکی کوئی ہندستانی تو کہیں پاکستانی۔کوشش یہ ہو رہی ہے کہ ان کے اندر اتحاد یا یگانگت پیدا کر کے انسان کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جا سکے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے نزدیک خیر اور شر اور ہے دوسرے کی نظر میں کچھ اور۔ یہ کون طے کرے گا کہ خیر اور شر اصل میں ہیں۔اب آئی ہے بات کہ کوئی ہستی تو ایسی ہو جو یہ سب کچھ طے کرے پھر اسلامی نقطہ نظر میں تو طے ہے کہ یہ پیمانہ تو وہ ہستی وضع کرے گی جو خالق ہے اور اس کے لئے وحی اور تنزیل ہی فرد سے اجتماع تک ایک سلیبس ہو گا۔اقبال یاد آئے: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ایک اور بات بڑی مضحکہ خیز حد تک دلچسپ ہے کہ دنیا کو ورلڈ آرڈر دینے والے یا یوں کہیں کہ سب کو ایک پیج پر لانے کے دعوے دار بلکہ علمبردار جنہوں نے کیا کیا بندوبست کر رکھا ہے کہ کیسی کیسی تنظیم سازی کر رکھی ہے مگر صرف اور صرف اپنی چودھراہٹ کے لئے وگرنہ بلند بانگ دعوے کرنے والے انسانیت کی سب سے پہلی اور اہم ترین اکائی یعنی خاندانی نظام تو تہس نہس کر چکے ہیں۔ اسلام میں تو خاندان کی اکائی پر بہت زور دیا گیا ہے ایک تربیت ہے تعلیم ہے آپ یقیناً خود بھی چاہتے ہیں۔میں اوسلو گیا تو میرا ایک دوست ملنے آیا تو اپنا دکھ بیان کرنے لگا کہ وہ سکھانے کیلئے اپنے چھوٹے بیٹے کو ایک تھپڑ لگا بیٹھا جس نے پولیس کو فون کر دیا اس کی تربیت کی کلاسز بیوی کو ساتھ لے کر جا کر اٹینڈ کرنا پڑیں آپ کے سامنے وہیں کے بچوں کی آزادی اور پھر بے راہروی سب کے سامنے ہے۔ جو ایلیا کہاں یاد آئے: مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں ایسے ہوتا ہے خاندان میں کیا گویا کہ بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ انتہائی ضرورت ہے یہ سب غلط ہے کہ اس سے بچوں کی نشو و نما رک جاتی ہے اور ذھن پر دبائو آ جاتا ہے حالانکہ آج کل کے برائلر بچوں کی نسبت پہلے بچے توانا اور صحت مند تھے۔آپ اسکو اس طرح سمجھیں کہ ڈاکٹر مریض کو خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو بعض اوقات زبردستی دوا پلاتا ہے یا ٹیکہ لگاتا ہے تو وہ دشمن تھوڑی ہوتا ہے اسی طرح والدین کوئی قصاب تھوڑی ہیں وہ بچے پر اگر سختی کرتے ہیں تو ان کے فائدے کے لئے، بچہ تو ناسمجھ ہوتا ہے پیار سے اکثر بچے بگڑ بھی جاتے ہیں۔وہی رنگ روپ ہم پر چڑھا اور چوکھا چڑھا کہ ایک نسل ایسی یہاں پیدا ہوئی کہ دیکھ دیکھ کر دل ہی بجھ گیا۔ بے داد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسد جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا ہم ذہنی طور پر مغلوم ہو گئے حالانکہ ہم تو راستہ دکھانے والے تھے۔ وہی جو اقبال نے کہا کہ وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرکسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شاہبازی ۔اسلام کا مخاطب تو انسان ہے ۔ہدایت بھی وہی جو خدا نے دی اس شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں جو اس نے طے کر دیا وہ طے ہو گیا اگر سود کی تنبیہ آ گئی تو پھر یہ باطل ہے اس کو ٹچ بھی نہیں کیا جا سکتا آپکو یاد ہی ہو گا کہ ہمارے ایک صدر صاحب نے علماء سے کہا تھا کہ ساری دنیا میں یہی نظام ہے تو سود کے حوالے سے کوئی گنجائش نکالنے کی کوشش کریں وہی کہ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ صراط مستقیم صرف اسلام ہی کے پاس ہے۔ ویسے حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ ہندو جانتے ہیں میں ایک خاتون دانشور کو سن رہا تھا وہ بتا رہی تھی کہ یہ صرف اذان نہیں یہ صرف نماز نہیں اور یہ صرف روزہ نہیں پورا تربیت کا ایک نظام ہے پوری اسلامی معاشرت ایک ڈسپلن میں ہے۔ بہرحال بات امت اور ملت کی ہو رہی تھی تو اس کے خدوخال آفاقی ہوں گے اور اس کا نظریہ الوہی ہو گا سب کے لئے قابل قبول یہاں خود سپردگی ہے۔