لاہور صرف پاکستان کا دل نہیں بلکہ پوری دنیا کا دل ہے۔ اِس شہر میں ایسے ایسے عجوبے رونما ہو چکے ہیں کہ جو شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں رونما ہوئے ہوں ۔لاہور بر صغیر کے تمام بڑے ادبی اور سیاسی لوگوں کا مسکن رہا ہے انگریزوں کے دور میں لاہور کو خوب صورت بنانے کے لیے زبردست کام کیا گیا۔ پنجاب کے پہلے گورنر منسٹر لارنس نے گورنر ہا وس ، لارنس گارڈن (باغ جناح ) جی پی او جیسی شاہکار عمارتیں تعمیر کرائی تھیں جو آج بھی لاہور کے حسن میں اضافہ کیے ہوئے ہیں اس طرح سے لاہور کی تاریخی مال روڈ جوناصر باغ سے شروع ہو کر نہر کنارے تک 5 کلومیٹر تک چلی جاتی ہے ۔ اِس تاریخی سڑک پر لاہور ہائی کورٹ ، مسجد شہیدا ، بلڈنگ چوہدری محمد دین ، واپڈا ہاوس ، چڑیا گھر ، الحمرا لاہور ، گورنر ہاوس ،وزیر اعلیٰ ہاوس ،7 کلب 8کلب ، ایوان اقبال باغ جناح جیسی تاریخی عمارتیں موجود ہیں ۔ ان خوب صورت عمارتوں کی وجہ سے مال روڈ کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا۔ قدیم لاہور اپنے بارہ دروازوں کے اندر پایا جاتا ہے جو شاہی قلعہ کی فصیل کے ساتھ ساتھ شروع ہوتے ہیں ۔بھاٹی دروازہ ، لوہاری دروازہ ، دہلی دروازہ ، موچی گیٹ ، یکی گیٹ ، شیرانو والہ گیٹ ، موری گیٹ یہ سب دروازے قدیم لاہور کی پہچان ہیں۔ دہلی دروازہ اور بھاٹی گیٹ کی بحالی کے لیے لاہور والٹن والوں نے بہت کام کیے ہیں جس میں ڈی جی لاہور والٹن کامران لاشاری کی بہت زیادہ محنت شامل ہے۔ دہلی دروازہ میں شاہی حمام کو بھی پرانی حالت میں بحال کر دیا گیا اِن تمام تاریخی عمارتوں اور دروازوں کی وجہ سے لاہور واقعی لاہور ہے اور اِس کے روحانی حسن میں اضافے کا اصل سبب حضرت علی بن عثمان الہجویری داتا گنج بخش ؒ ہیں ، جن کا مزار آج بھی سب کے لیے عقیدتوں کا مرکز ہے کہ جہاں پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے چلہ کشی کرنے کے بعد کہا تھا : گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا نا قصاںرا پیر کامل کاملاں را رہنما کچھ پراسرار لوگ بڑی خاموشی کے ساتھ حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں اور حالت مراقبہ میں کچھ دیر بیٹھ کر روحانی فیض حاصل کرنے کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں۔ اِن لوگوں کے لیے شریعت زیادہ مقدم ہوتی ہے۔ لاہور ہی میں ایک ایسی جگہ بھی ہے کہ جہاں پر صرف دنیا والوں کی رونقیں لگی رہتی ہیں چونکہ اُس جگہ کا نام ہی دنیا یعنی لکشمی ہے چونکہ یہاں پر لکشمی بلڈنگ موجود ہے جس کی وجہ سے اِس چوک کا نام لکشمی چوک مشہور ہو گیا ہے لکشمی بلڈنگ کے ایک کمرہ میں کبھی اُردو ادب کی نامور شخصیت سعادت حسن منٹو ،پنجابی شاعر احمد راہی بھی رہ چکے ہیں ۔ اُس زمانہ میں لکشمی چوک فلمی دنیا کا بھی مرکز ہوا کرتا تھا بلکہ قیام پاکستان کے بعدلکشمی چوک پر درجنوں سینما گھر تھے جو سب ہندوئوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کے حصوں میں آئے۔ لکشمی چوک پر ہی فلمی دفاتر ہوا کرتے تھے جہاں پر پورے ملک سے فلمیں بک کرانے کے لیے سینما مالکان یہاں پر آیا کرتے تھے ۔ لکشمی چوک بلڈنگ پر کھڑے ہو کر ماضی کے مشہور ولن مظہر شاہ نے اُس وقت بڑھکیں لگانا شروع کر دیں جس روز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدر ایوب کے خلاف ایک بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے لکشمی بلڈنگ کے سامنے سے گزرے۔ مظہر شاہ نے اپنی پاٹ دار آواز کے ذریعے زور زورسے بڑھکیں مارنا شروع کر دیںہ ’’بھٹو تیرا جواب نہیں ‘‘ یہ بڑھکیں سن کر بھٹو نے اپنا جلوس روک لیا تھا اور اپنے جیالوں سے پوچھا کہ یہ کون اپنی گرج دار آواز سے مجھے پکار رہا ہے تو پاس کھڑے جہانگیر بدر نے بتایا کہ بھٹو صاحب یہ پنجابی فلموں کا مشہور ولن مظہر شاہ ہے جو آپ سے متاثر ہو کر اپنی بڑھکوں کے ذریعے خوشی کا اظہار کر رہا ہے جس پرذوالفقار علی بھٹو نے مظہر شاہ کو اپنے پاس بلایا اورگلے لگا کر شکریہ ادا کیا تھا۔ لاہور زندہ دل لوگوں کا شہر ہے یہاں پر راتیں جاگتی ہیں اگر انسان صحیح معنوں میں زندہ دل اور محبت کرنے والا ہو تو وہ لاہور میں آکر بہت زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے میں 1986ء سے مسلسل لاہور آرہا ہوں جبکہ 1997ء کے دوران کچھ عرصہ یہاں پر غم روزگار کی وجہ سے مقیم بھی رہا لکشمی چوک بہت زیادہ آنا جانا رہتافلمی دنیا کے کئی نامور لوگوں کو بڑے قریب سے دیکھا۔ 1997ء میں جب روز نامہ آزاد میں کام کیا کرتا تو اِسی دوران دلی مسلم ہوٹل میں مقیم مہاراج غلام حسین کتھک کے پاس اکثر جانا ہوتا۔مہاراج غلام حسین کتھک انڈین شیکسپیئر آغا حشر کاشمیری کے شاگرد تھے جوقیام پاکستان کے بعد کلکتہ سے لاہور شفٹ ہو گئے تھے اور پھر فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد الحمرا لاہور میں کتھک رقص سکھایا کرتے تھے۔ عدنا ن سمیع اور زیبا بختیاربھی مہاراج غلام حسین کتھک کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مہاراج غلام حسین کتھک نے زیبا بختیار اور عدنان سمعی کی مشترکہ فلم سرگم میں بھی کام کیا تھا۔ وہ بھی لکشمی چوک کے بڑے قصے سنایا کرتے تھے جبکہ لکشمی چوک پر حیدر پان والا بھی بہت مشہور ہوا کرتا تھا جہاں پر رات گئے فلمی ستارے پان لینے کے لیے آیا کرتے تھے۔ اِسی لکشمی بلڈنگ پر ایک طویل عرصہ تک مشہور جنگجو اداکار لالہ سدھیر کی فلم جی دار کا ایک بڑا فلمی بینر لگا رہا لیکن اورنج ٹرین کے بڑے دیوہیکل ٹریک نے اب لکشمی چوک کی وہ پہلے والی رونقیں ختم کر دی ہیں۔ فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد اب یہاں سے فلمی دفاتر بھی اُجڑچکے ہیں اور اب صرف اِس چوک پر ہر طرف گوشت کڑاہی بنانے والون کی آوازیں آتی ہیں ویسے بھی اب ہماری قوم کھانے کی زیادہ شوقین ہو چکی ہے ۔