ان کا کام تھا کہ جواری نہ آتے تو انہیں لایا جاتا۔ دولت مند لوگوں کو پھانس کر لاتے۔ ہارجیت پر کمیشن پاتے۔ تیسرا گروپ لڑنے مرنے والوں کا تھا۔ یہ دراصل استاد کی فوج تھی۔ اس میں بڑے نڈر لوگ تھے۔ پولیس سے مقابلہ، مخالفین سے جھڑپیں، برتری کے معرکے سر کرنا، استاد جس طرف اشارہ کرتا یہ بھوکے شیروں کے طرح اس طرف جھپٹ پڑتے۔ اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لیے استاد نے انگریز پولیس سے گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ تھانوں کے اہلکاروں اور افسروں سے اس کا رابطہ تھا۔ پولیس والے اس سے تنخواہ لیتے جو تنخواہ دار نہ بنتا اسے ٹرانسفر کرا دیا جاتا۔ استاد جہاں دیدہ آدمی تھا۔ جیل سے رہا ہونے والے لوگوں کو خاندان اور معاشرہ دوبارہ قبول نہیں کرتے۔ استاد نے ہر رہا ہونے والے کو اپنے ہاں روٹی، کپڑا اور رہائش کی پیش کش کر رکھی تھی۔ لاہور میں دنگل کے لیے باہر سے آنے والے پہلوان استاد کے مہمان ہوتے۔ وہ ان کی خاطر مدارت کرتا۔ جیسے کوئی بادشاہ کرتا ہے۔(نقوش لاہور نمبر) 1857ء کے بعد لاہور میں بدمعاشوں، دشمن داروں اور ٹھگوں کی تعداد میں خطرناک اضافہ ہو گیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ انگریز حکومت نے کچھ ایسے افراد کو بھی امن و امان کے لیے خطرہ اور بدمعاش قرار دیدیا ہو گا جو حکومت کے خلاف مزاحمت کی سرگرمیوں میں سرگرم دکھائی دیئے۔ سرجان لارنس نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے۔ ہندو اور مسلمان بدمعاشوں نے الگ الگ دھڑے بنا رکھے تھے۔ ہندو اپنے گروپوں کو کالی اور شیوا سے منسوب کرتے ۔سرجان لارنس نے امن دشمنوں، دشمن داروں، بدمعاشوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف تین مقامات پر بڑی کارروائی۔ پہلی بازار حکیماں کے پاس تحصیل بازار میں، دوسری بیرون دلی دروازہ اور تیسری بادشاہی مسجد کے قریب شاہی محلہ میں۔ ان کارروائیوں میں کئی نامی گرامی ٹھگ اور غنڈے مارے گئے۔ انگریزوں نے ان کی لاشیں کئی روز تک اس وقت تک سرعام لٹکائے رکھیں جب تک ان سے اٹھنے والی بو ناقبل برداشت نہیں ہو گئی تا کہ لوگ عبرت پکڑیں۔ برطانوی دور میں ہر علاقے کا بڑا بدمعاش ’’پہلوان‘‘ کہلاتا۔ زمانہ چاہے اکبر کا ہو، رنجیت سنگھ کا ہو، سرلارنس کا ہو یا آج کا، ہمیشہ بدمعاشوں اور غنڈوں کو اہم حکومتی شخصیات اور ان کے قریبی ساتھیوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ قانون شکنی وہی کرتے ہیں جو قانون سازی کا حصہ ہوتے ہیں۔ لاہور کی سماجی تاریخ کے ماہر مجید شیخ نے مشہور دشمن دار کردار جگا گجرکی بہن میداں(حمیداں) کے متعلق کچھ تفصیلات اپنی کتاب’’ لاہور، ٹیلزود آئوٹ اینڈ‘‘ میں دی ہیں۔ ان کے مطابق بچپن میں جب میداں کو دیکھا تو اس کی عمر 65سال کے قریب تھی۔ 6فٹ قامت کی میداں کا اندرون شہر میں ڈیرہ اور بھینسوں کا باڑہ تھا۔ وہ اپنی چارپائی پر شان سے بیٹھی ہوتی۔ آخری بار جب مجید شیخ نے اسے دیکھا تو وہ 98برس کی تھی مگر اس کی آواز میں وہی گھن گرج برقرار تھی۔ اس کے پاس پنچائتیں لگتیں، ایک بار پولیس چوری کی بھینس تلاش کرتی اس کے باڑے تک آ گئی۔ بھاٹی تھانے کے ایس ایچ او نے کہا کہ قریبی دیہات کی چوری شدہ بھینسیں میداں کے پاس ہیں۔ عدالت میں پولیس افسر نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو میداں نے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ کچہری میں تماشہ لگ گیا۔ اسے جیل لیجانے کے لیے چار توانا اہلکاروں کو زور لگانا پڑا۔ اس پر لاہور کے تین سو گجروں نے ریہڑے لگا کر تھانے کا محاصرہ کر لیا۔ شہر میں دودھ کی سپلائی بند کر دی گئی۔ لاہور کے ہر گوالے نے میداں کو چھڑانے کے لیے ایک تولہ سونا دیا۔ پہلی ہی پیشی پر جج نے میداں کو بری کر دیا اور ایس ایچ او کی سرزنش کی کہ اس نے ایک خاتون سے بدسلوکی کیوں کی۔ رہائی کے بعد جلوس کی صورت میں میداں بھاٹی تھانے آئی اور باہر کھڑے ہو کر بڑھکیں لگائیں۔ معروف محقق عقیل عباس جعفری نے بی بی سی کے لئے چند برس پہلے جگا گجر پر ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جولائی 1968 میں ہونے والے ایک پولیس مقابلے میں جگا گجر کے مارے جانے کی خبریں پاکستان بھر کے اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنیں۔ یہ وہی جگا گجر تھا جس کے نام پر ’جگا ٹیکس‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی اور اس کے کردار پرپنجابی زبان میں متعدد فلمیں بنائی گئیں۔جگا گجر لاہور کے علاقے اسلامیہ پارک کا رہنے والے تھا۔ جگا کے بھائی مکھن گجر کا کسی بات پر لاہور کے ’معروف بدمعاش‘ اچھا شوکر والا سے ایک میلہ میںجھگڑا ہو گیا اور 1954 میں مکھن کو قتل کر دیا گیا۔بھائی کے قتل کے وقت جگا کی عمر محض 14 سال تھی۔ بھائی کے قتل کے آٹھ دن بعد جگا نے اس کا بدلہ لے لیا اور قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا کر جیل پہنچ گیا۔جیل پہنچ کر اسے علم ہوا کہ قتل کا اصل محرک اچھا شوکر والا تھا اور اسی نے قاتل کو اس کام کے لیے آمادہ کیا تھا، چنانچہ جگا نے جیل سے ہی اچھا شوکر والا کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر حملہ بھی کروایا۔ اس حملے میں اچھا کے دو آدمی مارے گئے اور اچھا خودزخمی ہوا۔شوکر والا کو مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کالا باغ کی سرپرستی حاصل تھی۔حکومت کے خلاف مظاہرے ہوں یا بد امنی کا کوئی اور واقعہامیر محمد خان کے کہنے پر اچھا شوکر والا حالات کو قابو میں لاتا۔عقیل عباس جعفری احمد عقیل روبی مرحوم کی کتاب ’کھرے کھوٹے‘ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس میں اچھا شوکر والا کے خاکے میں لکھا ہے کہ ’جب تک ملک امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر رہے کچھ لوگ اچھا شوکر والا کو ’چھوٹا گورنر‘ کہتے تھے۔ گورنر ہاؤس میں اْس کا آنا جانا یوں تھا جیسے وہ اپنے گھر آ جا رہا ہو۔ امیر محمد خان کے زمانے میں اچھا کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ شرافت ملا۔ گورنر موسیٰ خان کے دور میں جگا گجر کو جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔ جیل سے باہر آ کراس نے اپنا گینگ بنا لیا اور لاہور میں قصائی برادری سے جبری ٹیکس وصول کرنا شروع کیا۔ اس کی بدمعاشی کا مرکز بکر منڈی کا علاقہ تھا۔ وہ ہر قصائی سے ایک بکرے کی خریداری پر ایک روپیہ وصول کرتا۔ لاہور کے سابق ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمن نے سینئر صحافی منیر احمد منیر کو ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ ’جگا کی بدقسمتی کا آغاز اْس دن ہوا جب اس کا سامنا مزنگ میں پھلوں کی ایک دکان پر لاہور کے ڈپٹی کمشنر فتح محمد خان بندیال سے ہوا۔ بندیال صاحب نے دیکھا کہ پھلوں کی دکان پر ایک جیپ آ کر رْکی، اس میں سے ایک شخص اْترا، جس کے آگے پیچھے چھ، سات مسلح افراد تھے۔دکاندار نے بندیال صاحب کو نظرانداز کر کے اس شخص کو سلام کیا، جگے نے پھلوں کی چند ٹوکریاں اور شربت کی تین چار بوتلیں اپنی گاڑی میں رکھوائیں اور پیسے دیے بغیر روانہ ہو گیا۔ بندیال صاحب کے لیے یہ منظر ناقابل یقین تھا۔ (جاری ہے)