معاملہ کچھ یوں نہیں کہ اس بار بات ٹل گئی ہے۔ معاملہ یوں بھی نہیں کہ یہ آخری بار ہوگا۔ معاملہ یہ بھی نہیں کہ مغرب کو اس صورتحال کی نزاکت کا ادراک نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مغرب کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ شاید جب انہوں نے گستاخانہ خاکوں کے متعلق مغرب کی لاعلمی یا بے خبری کی بات کی ہو تو ان کی مراد مغربی عوام ہوں۔ مغربی میڈیا بالخصوص مغربی پریس ناموس رسالت ﷺاور توہین مذہب کی حساسیت سے نہ صرف واقف ہے بلکہ وہ اس معاملے میں دو قدم آگے بڑھا کر ایک قدم پیچھے ہٹا لینے کی پالیسی پہ کاربند ہے ۔ آج اگر ہالینڈ نے ملعون گریٹ وائلڈر اور اس کے حواریوں کی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا مقابلہ روکنے کا اعلان کردیا ہے تو اسے اچانک یہ احساس نہیں ہوا ہوگا کہ اس غلیظ حرکت سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔اگر گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی منسوخی کی وجہ قتل کی وہ دھمکیاں ہیں جو ملعون گیرٹ وائلڈر کو دی جارہی تھیں تو اس نے یہ حرکت پہلی بار کی ہے نہ ہی اسے دھمکیاں پہلی بار ملی ہیں۔یہ ملعون تو اس سے پہلے کئی بار مسلمانوں کے جذبات مجروح کرچکا ہے۔اس وقت بھی جب وہ نیدرلینڈز کے چوتھے بڑے شہر اوریخت کا مئیر تھا، اس کی دریدہ دہنی کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔بدنام زمانہ فلم فتنہ کا ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی وہی تھا۔اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ اکثر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہا ہے۔ ۔اس کی فلم فتنہ کی وجہ سے آسٹریلوی عالم فیض محمد نے اس کے قتل کا فتوی جاری کیا اور القاعدہ نے اپنی مبینہ ہٹ لسٹ میں جو اس کے مبینہ رسالے انسپائر میگزین میں شائع ہوئی اس کانام بھی شامل کردیا جہاں پہلے ہی سلمان رشدی کا نام موجود ہے۔اسی فہرست میں بدنام زمانہ فرانسیسی جریدے شارلے ہیبدو کے صحافی اسٹیفن کارب کا نام بھی شامل تھا جو شارلے ہیبدو پر حملے میں مارا گیا تھا۔گیرٹ والڈرز اپنے ملک میں ہجرت کر کے آنے والے مراکشی اور مسلم دنیا سے ہالینڈمیں منتقل ہونے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد کے باوجود کھلے عام شعائر اسلام کا مذاق اڑاتا اور رسول پاکﷺ کی توہین کا مرتکب ہوتا رہا اور نہ صرف سلامت رہا بلکہ الیکشن میں حصہ لیتا رہا ۔اس کی جرأت اس وقت بھی کم نہ ہوئی جب شارلے ہیبدو پہ حملہ ہوا اور ملعون گستاخان رسول ﷺ جہنم رسید کردیے گئے۔ہالینڈ کی حکومت گیرٹ وائلڈرز کی اس حرکت سے اس لئے بری الذمہ نہیں ہوسکتی کہ گستاخانہ خاکوں کے مکروہ مقابلے نہ صرف پارلیمنٹ آفس میں منعقد ہونے تھے بلکہ اس کے اعلان کے بعد ہالینڈ کی وزارت انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی نے اس کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا تھا۔جس شخص کا نام القاعدہ کی ہٹ لسٹ میں ہو ، اس کے باوجود وہ ایسی جرأت کرڈالے،وہ ایک شخص کی قتل کی دھمکیوں کے بعد مقابلہ منسوخ کردے یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اگر ایسا ہی ہوا ہے تو ہالینڈ کی حکومت اپنی ملک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد اور ماضی میں ایسے واقعات کے انجام کار کی روشنی میں اپنے قائد حزب اختلاف کو کیوں نہ روک سکی۔ کیا اس منسوخی کی وجہ حکومت پاکستان کا ہالینڈ کی حکومت پہ دبائو بنا ہے۔ یہ کسی حد تک درست اس لئے ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ معاملہ گذشتہ حکومت نے حل کیوں نہ کرلیا؟ایں سعادت بزور بازو نیست ولیکن بازوہلانا تو پڑتا ہے جس سے نون لیگ کی حکومت بدقسمتی سے محروم رہی ۔اب اگر حکومت مستقبل میں ایسے واقعات کے سد باب کے لئے معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانا چاہتی ہے تو ضرور لے جائے لیکن اقوام متحدہ کے کوڑے دان میں ایسی ایک نہیں کم از کم پچیس قرادادیں پڑی ہیں جو توہین مذہب بالخصوص توہین رسالت کے خلاف منظور کی گئیں۔ان میں سب سے پہلی قراداد 1999 ء میں خود پاکستان نے پیش کی۔ 1999ء سے 2013 ء تک پیش اور منظور ہونے والی ان قرادادوں میں پاکستان کا کردار متحرک رہا لیکن ان ڈھیلی ڈھالی قراردادوں کی موجودگی میں ہی توہین رسالت کے دل شکن واقعات ہوتے رہے۔ دوسری طرف یہی اقوام متحدہ پاکستان میں توہین رسالت اور ناموس رسالت کے قانون 295 سی کوحقوق انسانی کے نام پہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی۔اگر حکومت پاکستان واقعی اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہتی ہے تو اسے او آئی سی کے تمام افریقہ، ایشیا ، یورپ اور جنوبی امریکا کے تمام اسلامی ممالک میں ایسے قوانین وضع کرنے ہونگے جس میں توہین رسالت کی سزا موت ہو اور اس سلسلے میں عالمی دبائو کو رد کرنا ہوگا۔اگر سعودی عرب اپنے ملکی معاملات میں انسانی حقوق کے حوالے سے کینیڈا کے سفیر کا بیان برداشت نہیں کرسکتا اور اسے دیس نکالا دے سکتا ہے گوکہ اس کی اصل وجوہات کچھ اور تھیں تو کیا ناموس رسالت کا معاملہ اتنی بھی اہمیت کا حامل نہیں تھا کہ اس پہ ان ممالک کے خلاف کوئی سفارتی قدم ہی اٹھا لیا جاتا۔اگر تمام اسلامی ممالک یہ فیصلہ کرلیں کہ اس قسم کی کسی بھی قبیح حرکت پہ اس ملک کے سفیر کو بیک بینی و دوگوش نکال باہر کیا جائے گا تو کیا باقی مہذب دنیا تنہا نہیں ہوجائے گی۔اگر یہ سفارتی حربہ کارگر نہ ہو تو صرف ایک ماہ کی تجارتی پابندیاں جن میں ان ممالک کے ساتھ درآمدات بند کردی جائیں، ان کا دماغ ٹھکانے لگانے کے لئے کافی ہوگا۔ اگر اوپیک ان ممالک کو تیل کی فروخت ہی ایک ماہ کے لیے بند کردیتی تو بارہا ایسے واقعات رونما نہ ہوتے۔ سعودی عرب اس وقت یورپی یونین کا سب سے بڑا گاہک ہے اور وہ ملک جسے ناموس رسالت کے معاملے پہ باقی مسلم دنیا کا سرخیل ہونا چاہئے تھا، یورپ کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدوں میں مصروف ہے جہاں یہ واقعات جنم لیتے ہیں۔ فرانس جہاں شارلی ہیبدو نے گستاخانہ خاکے شائع کیے، ایرانی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے وہی ایران جس نے سلمان رشدی کے قتل کا فتوی جاری کیا۔ اور عالم اسلام کا مردحر ترکی یورپی یونین میں شمولیت کے لئے کب سے بے قرار ہے۔ اتنا کہ اس نے شارلے ہیبدو کے گستاخ مدیران کے قتل کے بعد جریدے سے اظہار یکجہتی کے عالمی مظاہرے میں داوداوغلو کو ترکی کی نمائندگی کرنے کے لئے بھیجا۔ بے شک تجارتی اور سیاسی مجبوریاں اہم ہیں لیکن کیا ناموس رسالتﷺ کی اتنی بھی اہمیت نہیں کہ اس کے لئے تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک ہی اپنے خریدار ممالک پہ دبائو ڈال کر اقوام متحدہ سے ایک واضح قانون پاس کروالیں جس کی رو سے توہین رسالت ﷺ قابل تعذیر جرم ہو اور اسے نام نہاد آزادی رائے سے نتھی نہ کیا جائے۔اقوام متحدہ میں جب بھی پاکستان یا کسی اور اسلامی ملک کی طرف سے توہین رسالت کے خلاف قراداد پیش کی گئی ، اس کا عنوان توہین رسالت و اسلام سے بدل کر توہین مذہب کر کے یہ تاثر دیا گیا گویا مہذب دنیا کو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات کی فکر ہے اور اس فکر کو کسی ایک مذہب یا پیغمبر کی ناموس کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے با وجود بہت سے یورپی ممالک ان قراردادوں کی مخالفت میں ووٹ ڈالتے رہے کہ ان کے لئے یہ آزادی اظہار کے خلاف ایک قدم تھا۔ یہی وہ آزادی اظہار رائے ہے جو اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آخر دنیا کے اعلی ترین انسان، محسن کائنات محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس کو نشانہ بنانا اتنا ضروری کیوں ہے کہ جس کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے جائیں۔اس سوال کا جواب آپ کواسی کمین گاہ سے ملے گا جہاں چھپ کر یہ بزدلانہ کاروائیاں کی جاتی ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے علمبرداروں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ہستی، کوئی مذہب اور کوئی نظریہ ایسا نہ رہے جو مادر پدر آزاد معاشرے کی راہ میں رکاوٹ ہو۔وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں کچھ بھی مقدس نہ ہو اور کسی بھی ہستی اور نظریہ حیات پہ کیچڑ اچھالا جاسکے جب ایسا ہوگا تو اس کا پیش کردہ خود بخود مشکوک ہوجائے گا اور جب ایسا متواتر ہوگا تو اس ہستی کا تقدس مدھم ہوتے ہوتے معدوم ہی ہوجائے گا۔ یہ تجربہ انہوں نے اپنے معاشرے میں بڑی کامیابی کے ساتھ کیا ہے اور مقدس ہستیوں کو آزادی اظہار کے نام پہ اتنے تواتر سے نشانہ بنایا ہے کہ اب یہ ایک معمول کی بات ہوکررہ گئی ہے۔ یہ ظالم یہ نہیں جانتے کہ رسالت مآب ﷺ ذات اقدس پہ اس قسم کے رکیک تجربات نہ کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہونگے کہ ان کا ذکر مبارک اللہ رب العزت نے ہمیشہ کے لئے بلند کردیا ہے۔ ایک بات انہوں نے ثابت کردی ہے اور وہ یہ کہ درحقیقت یہی وہ تہذیبوں کا تصادم ہے جو دریدہ دہنوں کو بار بار شان رسالت ﷺپہ حملہ آور ہونے پہ مجبور کرتا ہے کہ ان کے شیطانی عزائم کی راہ میں یہی آخری رکاوٹ ہے۔