وزارتِ عظمیٰ ختم ہونے سے پہلے ایک پنڈت نے جو ہمیشہ سے مسلم لیگ اور شریفس کے ناقد رہے ہیں نے چھوٹے میاں صاحب سے سوال کیا:ـ اگر آپ کو ماں اور بھائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو؟ میاں شہباز سوال کی کیمسٹری اور فزکس کو سمجھتے تھے۔۔مسکر اکر طرح دے گئے۔میڈیا کے مطابق میاں نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آ رہے ہیں۔کس لیے؟ظاہر ہے اپنی پارٹی کو الیکشن میں دوسری جماعتوں پر سیاسی برتری اور سبقت دلوانے کیلئے۔کیا ایسا ہو پائے گا؟شہباز شریف نے جب عمران کے خلاف عدمِ اعتماد کے بعد اقتدار سنبھالا تو لندن والے میاں صاحب عمران کو نکالنے کے حق میں تو تھے مگر فوری الیکشن بھی چاہتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ عمران اس وقت اپنی غیرمقبولیت کی انتہا پر ہے۔وجہ؟عمران کو اقتدار میں لانے میں پنجاب میں اُس کی مقبولیت بھی ایک فیکٹر تھی۔مگر اُسے کسی قریبی نے یقین دلا دیا کہ پنجاب کو بُزدار ہی درست طریقے سے چلا سکتا ہے۔اُسے لانے والوں نے بار بار کہا،سرکار اس سے جان چھڑا لو۔مگر بیگم بشریٰ اس سے پہلے ایک خاکی موکل کے کہنے پر اُسے یقین دلا چکی تھیں کہ2018ء میں وہ وزیرِ اعظم ہو گا اگر،اگروہ یہ۔۔یہ اور یہ کرے۔عمران جکڑا گیا اور اس نے وہ سب کیا جو یا تو گھریلو مشیر کا مشورہ تھا یا خاکی موکل کا۔جب اکتوبر2021ء میں غیر روحانی فیکٹرز کی وجہ سے یہ فسوں بگڑ کر اپریل2022ء میں اُلٹا پڑ گیا تو سب تدبیریں ۔۔۔ تقدیر کو نہ بدل سکیں۔ جب عمران کی رخصتی پر مولانا۔۔۔ زرداری اور شریفس سامنے آئے تو لوگ بدک کر عمران کی طرف پلٹے۔ عمران بیانیے گھڑنے کا ماہر ہے۔اُس نے سائیفر اور نہ جانے کیا کیا کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا میں پھیلا دیا۔ پی ڈی ایم کو چاہیے تھا کہ جوابی بیانیہ بناتی۔مگر یہ سب تو شاید حلوہ کھانے آئے تھے۔دیہاڑی لگائو۔۔۔کرپشن کے داغ مٹائو اور وہ فیصلے کرتے جائو جن سے طاقتور حلقے اور آئی ایم ایف راضی ہوتا چلا جائے۔اس کے بدلے وہ شریفس اور زرداریز کو قانونی چھتریاں فراہم کر رہے تھے۔ان سب نے اپنی اپنی باریاں وہاں سے شروع کیں جہاں پر ختم کی تھیں۔تبھی لندن سے ڈار نازل ہو گئے۔ایسے میں شہباز کیانہاتے۔۔کیا نچوڑتے؟نون کی مقبولیت ناک کے بل زمین کی خاک چاٹنے لگی۔پارٹی کی قبولیت پر پھر بات کرتے ہیں پہلے اس کی مقبولیت پر بات کر لیں۔شہباز شریف کبھی بھی اتنے معصوم ہر گز نہ تھے کہ وہ ہر ایسا فیصلہ کر رہے تھے جو عوام کی پھٹکار اور بددعائوں کا سبب بن رہا تھا اور انہیں اندازہ نہ تھا کہ پارٹی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔مقبولیت گرتی رہی اور قبولیت تسلیاں دیتی رہی اور وعدے کرتی رہی۔ اب بڑے میاں پاکستان آ رہے ہیں۔ملٹی ملین سوال ہے کہ کیا پارٹی جو کڈنی ٹرانسپلانٹیشن کے بعد قریب المرگ ہے صحتمند ہو سکتی ہے؟کیا الیکشن میں وہ کوئی اچھا سکور کر لے گی؟میاں صاحب کی آمد پر نون کو بہت سی غلط فہمیاں ہیں مگر میاں صاحب کی ٹائمنگ اور عطا بندیال کی رخصتی دونوں آگے پیچھے ہیں۔مسلم لیگ نون ہمیشہ سے اپر مڈل کلاس کی جماعت ہے۔تاجر،ٹریڈرز،دکاندار،انجمنِ تاجران اور چیمبرز آف کامرس پلس وہ جو بیچتے ہیں دوائے دِل۔یہ جماعت سٹیٹس کو کی جماعت ہے۔تبدیلی اس کے نظامِ ہضم کیلئے نقصان دہ ہے۔مریم نواز کے بیٹے کی شادی اور کیپٹن صفدر کے حالات اِن کے مائنڈ سیٹ کے عکاس ہیں۔مگر عوام خوش تھے قیمے والے نان پر اور بوٹی والی بریانی پر۔سچ پوچھیں تو سب جماعتیں ایسی ہی ہیں۔عوامی جماعت کبھی تھی۔۔بھٹو کی اور اُس کی بیٹی کی،مگر یہ پارٹی بھی اینٹی عوام بن گئی۔اب نہ نون نہ جنون اور نہ زرداریز۔ذرا غور سے موجودہ میسر نئی اور پرانی جماعتوں کی کیمسٹری اور شخصیات کو عینک اُتار کر دیکھیں۔ شریفس۔۔۔ چوہدریز۔۔ مولاناز، زرداریز، عمران اینڈ کمپنی، ترین اور علیم خان۔یہ پرانی بس کی پرانی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بس تو چلا سکتے ہیںمگر اس کی سمت کبھی درست نہیں کر سکتے۔ سمت درست نہ ہو تو ہر سفر رائیگانی کا سفر ہوتا ہے۔میاں نواز شریف تین دفعہ وزیرِ اعظم رہے۔اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا۔کرپشن کو سائنس بنا دیا۔بیوروکریسی کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔کسان،مزدور،طالبعلم مٹ سا گیا۔زراعت گِر سی گئی۔میاں نواز شریف ہمیشہ ایک تابعدار آرمی چیف چاہتے رہے جو اب اُن کی ڈس کوالیفکیشن بن گیا ہے۔انہیں مقبولیت میسر ہے یا نہیں مگر انہیں قبولیت حاصل نہیں۔نون چاہتی ہے کہ بڑے میاں صاحب واپس آئیں، الٰہ دین کا چراغ رگڑیں،جن سے الیکشن جتوائیں مگر شہباز شریف وزیرِ اعظم بن جائیں۔ اس میں بڑے میاں کا کیا فائدہ ہے؟ صرف یہی کہ مریم پنجاب میں کسی اہم عہدے کو سنبھال لیں۔مگر نہ تو نواز شریف کی آمد سے کوئی خاص فرق پڑے گا اور نہ ہی مسلم لیگ نون اکیلی اقتدار میں آ سکے گی۔وہ جو بیچتے ہیں دوائے دِل انہیں ڈار ڈالر ،حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت ہر ایک کا ڈیٹا از بر ہے۔اس جماعت کے مستقل وزیرِ خزانہ سے عوام شدید نفرت کرتے ہیں۔اس جماعت کے اندر سے مفتاح اور خاقان عباسی جو کہہ چکے ہیں وہ آن دی ریکارڈ ہے۔دلچسپ کامیڈی یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کو نہ میاں نواز شریف Ownکرتے ہیں اور نہ بلاول۔ پاکستان میں نئی اور پرانی ساری سیاسی جماعتیں ایک مستقل قبضے کا حصہ ہیں۔صرف جمہوریت کے نام پر۔تمام منصوبے اور پراجیکٹ Eliteبناتا ہے اُسی کیلئے ہوتے ہیں اور وہی نافذ کرتا ہے۔ایسے میں بڑے میاں کیا کوئی نئی ترکیب ،کوئی نئی ڈش یا کوئی نیا بیانیہ لے کر واپس آ رہے ہیں؟نہیں۔۔بالکل نہیں۔کہا جا رہا ہے کہ ہمار امسئلہ اب سیاسی نہیں معاشی ہے۔معیشت برباد کس نے کی؟اب جاوید لطیف اور آصف کرمانی ٹائپ مریم کے حواری توکہہ سکتے ہیں"میاں دے نعرے وجن گے"مگراسلام آباد اور پنڈی کی نبض پہچاننے والے حکماء کے مطابق شہباز کے پاس قبولیت ہے اور نواز کے پاس مقبولیت ہے یا نہیں طے ہو جائے گا۔وہ پنڈت جو شہباز شریف سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کو ماں اور بھائی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو؟ شہباز کی عوامی بے بسی جان لیتے تو سوال کی نوبت ہی نہ آتی۔