صورت حال یہ ہے کہ صورت حالات کا سبھی کو پتہ ہے‘حتیٰ کہ ان کو بھی جو صورتحال کو وجود میں لائے اور صورتحال یہ ہے کہ اس صورت حال کو سبھی نے قبول بھی کر لیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ‘دونوں جماعتوں کا طرز عمل قبول ہے‘قبول ہے والا ہے اور یہ بات اب بالکل عیاں ہو چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا بیان بھی اسی خیال کی تائید کرتا ہے۔انہوں نے فرمایا ہے کہ کسی اور کو لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ہم اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ یعنی جو ’’موجودہ‘‘ ہے وہ قبول ہے‘اسی کے ساتھ گزارا کریں گے۔ نئے کو نہیں آنے دیں گے۔ نیا کون ہے؟باخبر ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں کے اخباری اور ٹی وی تبصروں سے کچھ ایسا آشکار ہوتا ہے کہ ’’معاشی ترقی‘‘ کا پانی اب سر سے گزر گیا‘ کچھ کرنا ہو گا اور چھن چھن کر آنے والی خبروں سے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ‘ دونوں اس قومی حکومت کا حصہ بننے یا اس کی تشکیل میں شمولیت کاری کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ صورت حال پھر وہی ہوئی کہ موجودہ قبول ہے‘ اس کو ہٹا کر نیا لانے کے لئے تیار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کے اس انکار کو عناصر قدرت نے بھی قبول کر لیا ہے‘باامر مجبوری چنانچہ صورت حال جو ہے‘ وہیں رہیں گے اور ترقی بدستور اسی سمت میں ہوتی رہے گی جس سمت میں بے دھڑک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یعنی افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخروالی منزل ہنوز بہت دور ہے۔ ٭٭٭٭٭ حکومت کے ترجمان اول شیخ رشید نے دلچسپ انٹرویو دیا۔ فرمایا ‘پانامہ لیکس نہ ہوتا اگر نواز شریف کا ڈان لیکس نہ ہوتا۔یعنی پانامہ ڈان کی کوکھ سے پھوٹا۔ شیخ صاحب کی طرف سے اپنے عزم صمیم پر عملدرآمد کی شروعات ہو گئی ہے اور پہلا سچ انہوں نے بول دیا ہے۔ بہرحال ’’یہ سچ‘‘ کوئی انکشاف نہیں ہے۔ جاننے والے تو شروع دن سے ان سے یہ سچ جانتے تھے اور اب تو اس سچ کی حکایت عام ہو چکی ہے۔ جو نہیں مانتے تھے‘ وہ بھی مان گئے ہیں سچ کیا ہے۔ نئی بات صرف یہ ہوئی ہے کہ اب’’سچ‘‘ کا ارتکاب شیخ جی نے بھی کر دیا۔ ڈان لیکس کا باب تو ویسے ہی نمٹ چکا اور قصہ یوں بھی پارینہ ہو چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نہ صرف دریافت ہو گیا بلکہ لاگو بھی ہو چکا۔ آنے والی نسلوں کے لئے دونوں ملکوں میں امن‘ دوستی اور تجارت کے راستے کھل گئے۔ واحد رکاوٹ مسئلہ کشمیر تھا۔ ٭٭٭٭٭ اللہ بھلا کرے‘لکھنے والوں نے تو پانامہ لیکس کے آتے ہی بتا دیا تھا کہ قصہ کچھ اور ہے۔ پانامہ لیکس میں کچھ بھی نہیں دھرا ہے اور یہ بات سچ نکلی۔ واجد ضیا کے دس صندوق کسی کام نہ آئے‘ناچار نواز شریف کو عمر بھر کے لئے نااہل کرنے کا ہدف’’اقامہ‘‘ نکال کر پورا کرنا پڑا۔ یہ صندوق نیب کی عدالتوں میں بھی ناکارہ رہے چنانچہ انصاف کو نیا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ قانون یہ لاگو ہوا کہ نواز شریف خود ثابت کریں کہ وہ چور نہیں ہیں اور وہ ثابت نہیں کر سکے۔ استغاثہ کے کندھوں پر بوجھ کے نام پر تنکا بھی نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جانے سے پہلے جسٹس کھوسہ نے کسی اور مقدمے میں ارشاد فرمایا کہ نیب الزام لگاتا ہے تو ثابت کرنا بھی اس کے ذمے ہے۔ خلاصہ اس ڈاکٹرائن کا یہ ہے کہ الزام نواز شریف پر ہو تو اسے جھوٹا ثابت کرنا نواز شریف کے ذمے‘کسی اور پر ہو تو ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے۔ ٭٭٭٭٭ بہرحال ‘شیخ جی کا سچ پھر بھی ادھورا ہے۔ ڈان لیکس واحد جرم نہیں تھا جس نے نواز شریف سے نجات کا راستہ ہموار کیا۔ نواز شریف کے کبائرالاثم‘کچھ اور بھی تھے۔ ایک تو وہی جس کی طرف آئی ایم ایف نے حال ہی میں اشارہ کیا۔ یہ مطالبہ کر کے پاکستان چین پر انحصار کم کرے۔انحصار تو پہلے ہی کم ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا حقیقی منشا یہ تھا کہ بالکل ہی ختم کر دے۔ اگر نواز شریف امریکہ پر انحصار کم نہ کرتے‘ چین سے تجارت کا راستہ نہ کھولتے‘ سی پیک نہ بناتے‘ موٹر ویز اور شاہراہوں کی تعمیر کے کھیکھڑ میں نہ پڑتے(جس کے بارے میںارشاد ہے کہ ترقی کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں)بجلی کا بحران ختم نہ کرتے‘پاور پراجیکٹ نہ لگاتے‘ہسپتالوں کی تعمیر اور توسیع پر قیمتی قومی سرمایہ ضائع نہ کرتے‘گروتھ ریٹ بڑھانے کی حماقت نہ کرتے تو بالیقین آج بھی وزیر اعظم ہوتے۔لیکن وہ خودکشی پر تلے تھے۔ شیخ جی کا سچ ادھورا ہے۔ اب جبکہ انہوں نے سچ بولنے کے اپنے وعدے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے تو امید ہے‘وہ مزیدحقائق سے بھی پردہ اٹھائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ ایک تجزیہ نگار کچھ دنوں سے ’’تبدیلی‘‘ پر جھنجھلائے ہوئے سے نظر آتے ہیں حالانکہ اب تک تو وہ اپنے ممدوح کے پسینے کو گلاب و عنبر سے کم ماننے پر تیار ہی نہیں تھے۔ ایک حالیہ نگارش میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے تو پاکستان کو افغانستان بنا دیا ہے۔ یادش بخیر‘دو برس پہلے اسی کالم میں اس مضمون کی تحریریں لکھی تھیں کہ تبدیلی مل گئی تو ملک کو صومالیہ بنا دیں گے۔ مراد آج سے عشرہ ڈیڑھ عشرہ پہلے والے صومالیہ سے تھی کہ اب تو صومالیہ پاکستان سے ترقی میں کئی درجے آگے ہے۔ یوں غلط فہمی کا احتمال تھا۔ افغانستان زیادہ بہتر مثال ہے۔ بہرحال کسی کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔