اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نگران حکومتوں میں وہ سب لوگ شامل ہوتے ہیں جن کے حقیقی حکمرانوں کے ہمیشہ تعلقات رہتے ہیں جو سیٹ اپ کے لئے کبھی اجنبی نہیں ہوتے۔ لیکن جب حکمرانوں کو حالات کا ادراک نہیں ہوتا تو وہ ہر سوال میں اپنے مطلب کا جواب ڈھونڈتے ہیں اس لئے ان کا وہ جواب نہیں ہوتا جو سوال کرنے والا تلاش کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں نواز شریف کی واپسی اور اڈیالہ جیل میں موجود عمران کے مستقبل کے امکانات سب سے نمایاں موضوعات ہیں۔ نواز شریف قوم کے سامنے ایک زخم خوردہ مظلوم کے طور پر آنا چاہتے ہیں ۔لاہور کے ہوائی اڈے پر قدم رکھتے ہی انہیں فضا یقینا بدلی بدلی نظر آئے گی انہوں نے اس شہر میں اپنی شہرت کا ڈنکا بجتے دیکھاہے۔ اب اس کے رنگ کچھ بدلے بدلے دکھائی دے رہے ہیں۔پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت اور اس کے فیصلوں کی تباہ کاری نے نواز شریف کی جماعت کے سیاسی اثاثے اور عوامی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لاہور کے جمخانہ گرائونڈ سے کرکٹ کی کٹ پہنے لاہور کے گورنر ہائوس کے سوئمنگ پول کے ساتھ سبزہ زار میں پہلی بار جنرل جیلانی کے ہاتھوں سے سیاست کی دستار باندھنے والے نواز شریف نہ جانے کتنے نشیب و فراز سے گزرے۔ جنرل ضیاء کی سرپرستی میں پگڈنڈیاں جن کے لئے شاہراہ بن گئی۔وہ سر جھکائے چلتے رہے ۔بہاولپور کے قریب لال کمال بستی کے افسوسناک سانحہ کے بعد انہیں جیسے کسی نے تیرنے کی مشق سکھانے کے لئے تالاب میں دھکا دیدیا۔90ء کی دہائی ان کے لئے ایک امتحان ثابت ہوئی انہوں نے اپنے بازوئوں پر بھروسہ کرتے ہوئے 58-2Bکی بے دریغ طاقت کے مالک صدر غلام اسحق خان کو بھی آنکھیں دکھائیں بلکہ پاکستان کی مضبوط اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے ایک بے خوف سیاستدان ہونے کا تاثر دیا تاہم اپنی اس جرأت کے سبب انہوں نے پاکستان کے عوام کو پہلی بار اپنے وجود کا احساس ضرور دلایا۔90ء کی پوری دھائی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین سیاسی کشمکش میں گزری۔ بے نظیر بھٹو نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا میری زندگی کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ یا تومیں جیل میں ہوتی ہوں اور دنیا کا سارا وقت میرے پاس ہوتا ہے لیکن کسی سے مل نہیں سکتی یا میں جیسے اب آزاد ہوں اور بہت سے تقاضے میرے سامنے ہیں۔ جب میں چھوٹی تھی تو میں سیڑھیاں چڑھنے کے بابت بھیانک خواب دیکھا کرتی تھی۔ اچانک میرے سامنے میرے خوابوں کی سیڑھی تھی ،یہ معجزہ ہی تھا کہ پلیٹ فارم تک پہنچ گئی میرا دل خوشی سے گنگنا رہا تھا میں سوچ رہی تھی کہ یہ میرے والد کی سرخروئی ہے جنہوں نے ملک کے لئے جان دیدی۔ ’’جیل نے مجھے زندگی سے سمجھوتہ نہ کرنا سکھایا میرا پہلا مہینہ بدترین تھا مجھے یہ اطلاعات پہنچائی جاتی تھیں کہ پارٹی کے بہت سے حامیوں نے سودا کر لیا ہے مجھے کہا جاتا تھا کہ میں اپنی جوانی اور وقت برباد نہ کروں اس وقت میں اپنے آپ کو اتنا اکیلا محسوس کر رہی تھی کہ کوئی شخص مجھ سے میٹھے لہجے میں یا مہربانی سے پیش آتا تو شاید میں اپنا راستہ چھوڑ دیتی لیکن میرے ساتھ سخت رویہ رکھا گیا اس لئے مجھ میں مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا ہو گئی‘‘۔ اب بے نظیر اس دنیا میں نہیں رہی لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیسا خطرناک دور آ گیا ہے کہ قاتل مقتولین کے ساتھ ہی اجل کو گلے لگا لیتے ہیں۔ خودکش بم دھماکہ کرنے والے خود کو بھی اڑا دیتے ہیں ذرا سوچیے کہ وہ کون ستم گر ہیں جو آگ اور خون کے اس کھیل میں تمام باریکیاں طے کرتے ہیں ان کہانیوں کے تانے بانے بنتے ہیں، کون ماسٹر مائنڈ ہیں، کہاں یہ طے ہو رہا ہے کہ کس کو کب ختم کرنا ہے۔یہ لوگ کس طرح ہمارے تشکیل ہوتے معاشرے پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں ہماری تہذیب ہماری اقدار ہمارے تمدن کو کس طرح مٹا دینا چاہتے ہیں محترمہ کی شہادت جیسی ٹریجڈی نے ان جیسی قیمتی ہستی کو قوم سے جدا کر دیا لیکن ان کے مسودے میں پاکستانی معاشرے کو اجتماعی طور پر مفلوج کرنا بھی تھا۔ میں سوچتا ہوں یہ کون لوگ ہیں جو ہماری نسل کی ایک بڑی تعداد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی زندگی جیسی بڑی نعمت کو اپنے ہاتھوں سے ختم کروا رہے ہیں۔نہ جانے اس عمل میں ہم کتنے بڑے ایسے ذہنوں سے محروم ہو رہے ہیں جو مستقبل میں سائنسدان استاد، اکنامسٹ، صنعت کار بن کر پاکستان کو آگے لے جاتے۔ یہ نوجوان اپنے آپ کو ختم کر رہے ہیں ان کی اس یقین کی طاقت اگر اس معاشرے کی تعمیر میں صرف ہوتی تو ہم پاکستان کو کن بلندیوں پر لے جا سکتے تھے۔یہ ڈر یہ خوف جو من حیث القوم ہمارے ذہنوں میں بیٹھ رہا ہے جڑ پکڑ رہا ہے وہ ہمیں آگے جانے سے روک سکتا ہے۔جس طرح جمہوریت جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے اسی طرح ضروری ہے کہ ہم اپنے‘ افکار‘ تہذیب تمدن ثقافت اور اقدارسے بے گانہ نہ ہوں ،اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نہ مٹنے دیں۔ شدت پسند قوتیں ہماری تخلیقی حس‘ تہذیبی اقدار اور ترقی پذیری کا خون بہانا چاہتی ہیں ہم ان کے خطرناک ارادوں کا ادراک کریں۔ یہاں پاکستان کے سیاسی منظر میں دہشت گردی کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ لہر جو وقفے وقفے سے ہمارے معاشرے میں بلند ہوتی ہے اور ہمارے سامنے نت نئے سوالات کھڑے کر جاتی ہے‘ نواز شریف کو ایئر پورٹ سے مینار پاکستان جلوس کی صورت میں نہ لایا جائے‘ عمران خان کو جوڈیشل کمپلکس میں پیشی کے لئے لانا سکیورٹی رسک ہے۔ اس لئے سماعت جیل میں کی جا رہی ہے۔ اسی طرح بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کو بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ جلسے جلوسوں کے حوالے سے تمام ضروری حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ یہ تو ہم سب کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ سوچیں کہ یہ سب کیا ہے۔ یہ ماحول کیسے بن گیا یہ فضا کیوں ہے ایسی زمین کیوں ہے ،عوام اپنے سامنے دہشت گردی کی ہولناکیاں دیکھنے پر کیوں مجبور ہیں ،عوام کی خواہشات اور ان کے خواب ادھورے کیوں رہ جاتے ہیں، سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنی طاقت مستحکم کریں اندرونی اختلافات ختم کریں۔باہمی اختلافات رائے کو ذاتی دشمنیوں میں نہ بدلیں باہم محنت یکجہتی اور وابستگی کا اظہار کریں اپنے اظہار سے لوگوں میں اخوت اور بھائی چارہ پیدا کریں۔ بکھرے ہوئے منقسم لوگوں کو ایک متحد قوم بنائیں۔ اپنے تمام معاملات باہم مشاورت سے حل کریں۔ اپنے سیاسی کارکنوں کے جذبات کو پہچانیں ان کی طاقت کی قدر کریں۔کسی اور کی طرف دیکھنے کے بجائے باہم مل بیٹھنے کا اہتمام کریں ۔سیاستدان اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں عام لوگوں کی محبتیں اور عقیدتیں میسر آتی ہیں ۔ان کو ایک روز چلے جانا ہوتا ہے لیکن آپ کا عمل اور کارکردگی ہی آپ کو زندہ رکھتی ہے باہم شیرو شکر ہوں۔ صوبوں کی دوریاں کم کریں۔ اس سے وفاق مضبوط ہوتا ہے چاروں صوبوں کی زنجیر بندھی رہے۔اعتدال پسندی گھروں میں محصور ہو کر نہ رہ جائے۔اس مفلوک الحال قوم کا سچائی سے ہاتھ تھامیں، ان کی آواز سنیں۔