معزز قارئین!۔ آج 15 ستمبر ہے اور دُنیا بھر میں سال میں ایک دِن 15 ستمبر کو یوم جمہوریت (Democracy Day) منایا جاتا ہے ۔ ہمارے پیارے پاکستان میں بھی کبھی کبھی یہ ناٹک رچایا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کے قائدِ ایوان ، وزیراعظم عمران خان اور حزبِ اختلاف کی دو بڑی پارٹیوں (میاں شہباز شریف کی قیادت میں ) مسلم لیگ (ن) اور (سابق صدر زرداری کی قیادت میں ) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی) کا ’’ یومِ جمہوریتؔ منانے کا پروگرام ہے یا نہیں؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دُنیا کے جمہوریت ؔپسند ملکوں کی طرف سے سال میں ایک ہفتہ جمہوریت ؔ(Democracy Week) منایا جاتا؟۔

ممکن ہے کہ آج ’’ ترقی یافتہ ملکوں‘‘ میں ’’ جمہور‘‘ ( عوام) اور حکمران مکمل یک جہتی اور یگانگت کے ساتھ ’’ یومِ جمہوریت‘‘ منا رہے ہوں ؟ لیکن، پاکستان سمیت تمام ’’ ترقی پذیر ملکوں‘‘ میں چونکہ عوامؔ کو ’’ عوام کالا نعام‘‘ (یعنی۔ ڈھور ڈنگر) سمجھا جاتا ہے، اِسی لئے وہ ( سال میں ایک دِن بھی ) یوم جمہوریتؔ منانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے؟ اور حکمران بھی رُوٹھے ہُوئے عوام کو منانے ؔمیں دلچسپی نہیں رکھتے ؟۔ عِشق و محبت کا معاملہ اور ہوتا ہے جب طالبؔ (اپنے) ، مطلوبؔ سے دریافت کرتا ہے کہ …

بے سبب! مجھ سے رُوٹھنے والے!

کوئی صُورت تجھے منانے کی؟

تاہم مَیں مایوس نہیں ہُوں ۔ مجھے یقین ہے کہ آج الیکٹرانک میڈیا پر جمہوریت ؔاور یوم جمہوریت ؔپر حکمران طبقہ اور حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں اور مذہبی قائدین ( کم از کم فضل اُلرحمن صاحب) دانشور، تجزیہ کار اور اینکر پرسنز، ایک دوسرے سے بحث و تمحیص اختلاف ’’ تُو تُو ، مَیں مَیں ‘‘ اور طعن و تشنیع کرتے ہُوئے ، اپنے اپنے انداز میں یومِ جمہوریت ضرور منائیں گے ؟ ۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کی حکمرانی کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دِن ہُوئے ہی نہیں لیکن شعر و سُخن سے دلچسپی رکھنے والے حزب اختلاف کے کسی رُکن نے صدر مملکت جناب عارف علوی اور وزیراعظم جناب عمران خان کو مخاطب کرتے ہُوئے مرزا غالب کا یہ شعر پڑھ دِیا تو ، کیا ہوگا؟ …

غرّہ اَوج بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو!

اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دِن!

یعنی۔ ’’ تُم دُنیا کی بلندی ( حکمرانی) پر مقررہ مُدّت ہو !کیونکہ ایک نہ ایک دِن اِس دنیا ( جمہوریت) کو ختم ہونا لازمی ہے ‘‘۔ معزز قارئین !۔ حکمران طبقہ اور حزبِ اختلاف کے قائدین میں تو تُو، مَیں مَیں یا ’’ دھول دھپا‘‘ ہو تو اُسے جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے رہوار ( گھوڑے) کی رفتار اور اُس کے حُسن کی تعریف کی تو پتہ چلتا ہے کہ وہ گویا جمہوریتؔ کے حُسن کی تعریف کررہا ہے؟ ملاحظہ ہو!…

ہر سمت کو بڑھتا ہے عجب حُسن سے رَہوارؔ!

گردن ہے کہ اچھی کوئی کستی ہُوئی تلوار؟

گھوڑےؔ اور جمہوریتؔ کے حسن سے وہی لوگ فیض یاب یا لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو طاقتور ہُوں اور اُن کے پاس اِن دونوں حسینوں ؔ پر سواری کرنے کے وسائل بھی ہُوں اور جو لوگ کمزور اور بے وسائل ہُوں وہ صِرف گھڑ ُسواروں ؔاور جمہوریت سواروں ؔکی طاقت کے مظاہرے دیکھتے ہیں اور اپنے جیسے لوگوں ( جمہور) کی طرف دیکھ کر خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے بچوں کی ایک نظم میں ’’ جگنو میاں کی دُم ‘‘ کا تذکرہ کِیا ہے ، اگر نظم کے اِس شعر میں ’’ جگنو میاں کی دُم ‘‘ کے بجائے جمہوریتؔ جڑ دِیا جائے تو ، یوں ہو جائے کہ !۔

جمہوریتؔ کی دُم جو چمکتی ہے رات کو!

سب دیکھ ،دیکھ، اُس کو بجاتے ہیں تالیاں!

معزز قارئین!۔ 9 جون 1992ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ فوج مملکت کا پانچواں ستُون‘‘ لیکن آج ( یوم جمہوریت) کو مَیں سنجیدگی سے لِکھ رہا ہُوں کہ ’’ فوج۔کافی عرصہ سے مملکت کے پانچویں ستون کا کردار ادا رہی ہے ۔ ‘‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں اقتدار سنبھالا اور وہ اگست 2008ء تک وردی سمیت صدر پاکستان رہے۔ پھر نان گریجویٹ آصف علی زرداری کا دَور آیا تو قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف کی قیادت میں سب سے بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے "Friendly Opposition" کا کردار ادا کِیا۔ 11 مئی  2013ء کے عام انتخابات کے نتیجہ میں میاں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہُوئے تو جنابِ زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی ) بھی "Friendly Opposition" کہلائی۔ 

اُن دِنوں کہا جاتا تھا کہ برطانیہ کے ’’غیر تحریری آئین ‘‘ (Unwritten Constitution) کی طرح آصف زرداری اور نواز شریف میں ’’غیر تحریری میثاق ‘‘ ( Unwritten Agrement) ہوگیا ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دئیے جانے کے بعد بھی ، جب "His Master's Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ’’دورِ جمہوریت ‘‘ آیا توجمہورؔ کو کیا مِلا؟۔ جمہوریت کے اُن ادوار میں ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا کہ کہیں ’’ قوم کے وسیع تر مفاد میں ‘‘ آرمی چیف "Take Over"نہ کردیں ؟  لیکن  جنرل اشفاق پرویز کیانی ، جنرل راحیل شریف اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا پر آ کر ’’میرے ہم وطنو! کی صدا سُنائی نہیں دِی۔ اِس دَوران میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی طرف سے بار خبردار کِیا جاتا رہا ہے کہ …

سکریپ ؔبن نہ جائے لے جائیں نہ کباڑی!

لنگڑا کے چل رہی ہے جمہوریت ؔکی گاڑی!

…O…

تنظیم ہو سیاسی یا مذہبی جماعت! 

اِک خالہ جی کا باڑا ؔ اِک ماموں جی کی باڑیؔ!

…O…

اسلام آبادؔ کوئی پیغام لے کے جائے!

افلاس نے ہماری  صُورت شکل بگاڑی!

معزز قارئین! ہمارے اکثر سیاستدان اور مذہبی قائدین بھی کسی مغربی مفکر کے اِس قول کی جُگالی کِیا کرتے ہیں کہ ’’ بدترین جمہوریت َؔ۔ بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے‘‘ لیکن کمال ہے کہ ’’ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے لے کر ، جنرل قمر جاوید باجوہ تک پاک فوج نے بہترین آمریت ؔ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میرا خیال یہ ہے کہ’’ بہت عرصے بعد میرے اور آپ کے پیارے پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک ایسی منتخب حکومت وجود میں آئی ہے ، جسے عوام کے علاوہ ریاست کے چار ستونوں ، پارلیمنٹ ،حکومت ،اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاک فوج ( حقیقی معنوں میں ) مملکت کا ’’پانچویں ستون ‘‘ ہے لیکن اِس بار پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام نے وزیراعظم عمران خان اُن کی پارٹی ’’پاکستان تحریک ِ انصاف ‘‘ اور اُس کی اتحادی جماعتوں سے بہت ہی زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ، مختلف وفاقی وزراء ، چاروں صوبوں کے گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور پارٹی کے دوسرے لیڈروں کی طرف سے عوام کو ایسی ایسی ’’خوش خبریں‘‘ سُنائی جا رہی ہیں۔ کہ جِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کو کئی سال بعد ، عوام کے لئے ایک ایسی نظم تخلیق کرنے کا موقع مِلا ہے۔ جِس پر ’’مجھے اور میرے لاکھوں ساتھیوں ‘‘ کو بھی ،وزیراعظم عمران خان کے وعدے کے مطابق مستقبل کی ریاست پاکستان ؔ ۔ فی الحقیقت ریاست ِ مدینہ ؔ کی صُورت میں دِکھائی دے رہی ہے۔ فی الحال مَیں خُود کو ’’مہاجرین مکہ ‘‘کی سطح پر رکھ کر اُس نظم کے صِرف چار شعر نذر قارئین کر رہا ہُوں ۔ ملاحظہ فرمائیں…

اِس حکومت نے سُنایا مُژدۂ فصلِ بہار!

مِلّت غُرباء کی خُوشحالی کے وعدے بے شمار!

…O…

خُود بخود گِر جائیں گے سارے کرپشن کے ستُون!

بس دیانت اور امانت پرہی ہوگا اِنحصار!

…O…

ڈاکوئوں اور چوروں کا مِٹ جائے گا نام و نشاں!

اور دہشت گرد بھی ہوں گے نہ ہر گز کامگار!

…O…

وقف کردیں گے سبھی دولت غریبوں کے لئے!

ہوں گے انصارِ مدینہ کی طرح سرمایہ دار!