یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوم ہے کمشنر راولپنڈی ۔۔ اُن کے الیکشن کو ہلا دینے والے انکشافات کی۔ غور سے سنیں ۔۔۔ سمجھیں، اُن کا ضمیر کیسے اور کیونکر جاگا؟ وہ کس پر الزام لگا رہے ہیں اور کس پر نہیں؟ پنڈت کہتے ہیں الیکشن دوائی میں صرف اجوائن اور ادرک ہی مکس کرنا تھا۔ جونیئرز نے اپنے ہی طور پر اس میں تھوڑا سا سنکھیا بھی ملا دیا۔ دوائی کے اثرات کا نسبت تناسب بگڑ گیا۔ جو پراڈکٹ تیار ہوئی اس نے غریب اور یتیم جمہوریت کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیاہے۔ مقابلہ مولانا، زرداری، PTI اور ن کا نہیں۔ یُدھ ہے فارم 45 کا فارم 47 کے ساتھ۔ میاں نوازشریف کے چہرے پر لکھا ہوا ہے، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ مولانا اور عمران کا ایک صفحے پر ہونا قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ بھی کہ نون کہے کہ میں اسلام آباد نہیں جائونگی ۔ نون کے ساتھ جو ہوا وہ کم ہے۔ اس زیادہ بھی ممکن تھا۔ کیوں؟ PDM سے آج تک ۔۔ اپریل 2022 وہ کبھی بیانیہ بنا ہی نہ پائی کہ جوکچھ ہوا اس کے ذمہ دار ہم اکیلے نہیں۔ مہنگائی کے ذمہ دار صرف ہم نہیں۔ آپ مان لیں کہ مسلم لیگ نون جلد ہی مرکز میں حکومت بنائے گی اور آصف زرداری بھی مان جائیں گے۔ بلاول کا اصولی موقف بھی نرم پڑ جائے گا اور سب اچھے بچوں کی طرح آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ آصف زرداری مرکز میں صدر اور سینٹ کی چیئر مین شپ کا تقاضا کر رہے ہیں اور وہ سب کچھ جو آپ میڈیا میں سن چکے ہیں ۔ مگر ’’وہ‘‘ آصف زرداری سے پرہیز کر رہے ہیں۔ کیونکہ عارف علوی کو صدر بنانے کا تجربہ ٹھیک نہیں رہا۔ ان کی نظریں کاکڑ ۔۔ سنجرانی اور بھگٹی پر ہیں۔ شہباز شریف وزیر اعظم بن سکتے ہیں مگر ان کی پارٹی میں اسحاق ڈار سمیت ایک پورا دھڑا نون کی حکومت میں شمولیت کی مخالفت کر رہا ہے۔ کیوں؟ طے یہی تھا کہ اگر اکثریت ملی تو بڑے میاں ورنہ چھوٹے میاں ۔ اب پنڈی گزٹ کے مطابق اسحاق ڈار سے معاشی ماہرین بھی ناراض ہیں اور IMF بھی اس لیے وزیر خزانہ وہ ہوگا جسے اسٹیبلشمنٹ ٹپ کرے گی۔ شہباز شریف اسحاق ڈار کے لیے کوئی مزاحمت نہیں کریں گے۔ اگر نواز شریف ہوتے تو ڈٹ جاتے اپنے سمدھی کے لیے۔ اس مرتبہ تمام اہم فیصلے وزیر خزانہ ہی کرے گا۔ ایسے میں نون کے اندر ایک دھڑا جو شہباز مخالف ہے وہ مرکز میں حکومت بنانے کی مخالفت کر رہا ہے۔ مگر ہوگا وہی جو طے ہے، معمولی ردوبدل کے ساتھ ۔ مرکز طے نہیں مگر پنجاب میں طے ہے کہ نون کی حکومت ہوگی جس کا چہرا مریم نواز ہوں گی۔ جب تک مرکز میں نون کی حکومت بننے کا فیصلہ نہیں ہوتا ، پنجاب میں بننے والی حکومت پر ایک اندیکھا پریشر رہے گا۔ وجوہات یہ ہیں کہ مسلم لیگ نون کا سیاسی سٹرکچر پنجاب میں مفادات کے ایک خاص ڈھانچے پر کھڑا ہے۔ کچھ لو، کچھ دو۔ اس میں عام ووٹر کے پاس اگر کچھ تھا تو وہ PDM حکومت میں اس سے چھن گیا۔ اب نون کچھ دے نہ دے ۔۔۔ عمران انہیں کل کے خواب دیکھا سکتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے مجھے رہنے دیتے تو ایسا ہوجاتا۔ ووٹر عمران کے بیانیے کو سچ سمجھتا ہے اور نون کے ماضی سے شاکی ہے ۔ اپنے والد کی پسندیدہ ہونے کی وجہ سے مریم نواز پنجاب کی چیف منسٹر بن جاتی ہیں تو انہیں کچھ فوائد ورثے میں حاصل ہوں گے۔ ان کے والد ان کی راہنمائی کریں گے کہ بیورو کریسی کو کیسے ٹریٹ اور ہینڈل کرنا ہے۔ پنجاب میں پارٹی سٹرکچر کو حمزہ کی مدد سے کیسے دوبارہ متحرک کیا جاسکتا ہے۔ مریم اقتدار کے اس کھیل میں اگر حمزہ سے تعاون اور مفاہمت حاصل کر پائیں تو یہ ان کی کامیابی ہوگی۔ حمزہ جانتے ہیں کہ کس حلقے میں کون سے ورکر اہم ہیں اور گلی محلوں میں ان ورکروں کے ذریعے کس طرح عام آدمی کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ مریم نواز کے اردگرد ایک ذاتی حلقہ ہے خواتین کا ۔۔۔ کچھ نام یاد ہیں ۔۔۔ مریم اورنگ زیب ، حنا پرویز اور ایک نئی MPA مائی وڈیری صاحبہ اس حلقے کی اہم خواتین ہیں۔ اس اندرونی حلقے کے باہر ایک بڑا حلقہ بھی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا پورا ایوان ہے۔ حکومتی اراکین، اتحادی، اپوزیشن اور وہ سب بھی جو الیکشن ہار گئے ہیں مگر نون کا حصہ ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ پیپلز پارٹی کو کیسے ہینڈل کیا جائے گا۔ آزاد اراکین کے مطالبات کیسے ہوں گے؟ کیا کیا ہوں گے؟ انہیں کیسے پورا کیا جائے گا۔ یہ سب ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ مریم کا تقابل ۔۔۔ ان سے پہلے کے چیف منسٹر محسن نقوی سے بھی کیا جائے گا۔ ایسے میں جب وزیر بنانے کی باری آئے گی تو جہاں بہت سے راضی ہوں گے بہت سے ناراض بھی ہو جائیں گے۔ محسن نقوی کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ وہ نگران تھے۔ ان کی سیاسی مجبوریاں بظاہر اتنی نہ تھیں، جتنی مریم کی ہونے والی ہیں۔ اس وقت ان کے پاس وقت ہے ، یقینا پس پردہ اس وقت مریم کی سیاسی ٹیم اور بیوروکریٹک ٹیم کا انتخاب ہو رہا ہوگا۔ ایک خدشے کی زد میں وہ ہمیشہ رہیں گی اور وہ یہ کہ ان کے پاس کتنا وقت ہے۔ انہیں پاور کتنی دیر کے لیے ملی ہے۔ آثار النجوم کے مطابق وہ اپنی مدت نہیں مکمل کر پائیں گی۔ وقت کم ہے، مقابلہ سخت ۔ بڑا موقع اپنے ساتھ بڑے امتحان لے کر آتا ہے۔ میاں نواز شریف 1985 میں جب وزیر اعلیٰ بنے تو وقت بے حد مہربان تھا۔ مریم جب تخت لاہور پر بیٹھ رہی ہیں تو نون کے لیے وقت خاصا نامہربان ہے۔ شاید تقدیر اور تدبیر کی لڑائی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ شاید یہ مصرعہ ایسے ہی وقتوں کے لیے کہا گیا تھا۔۔۔ یہ نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے۔