پاکستان کے ابتر معاشی حالات کا رونا رو کر ہر کوئی بیرونِ ملک جانے کیلئے بے چین نظر آتا ہے۔سوشل میڈیا پر ملکی حالات کو خراب سے خراب دکھا کر اور مصنوعی مایوسی پھیلاکر ہر طرف امریکہ ، آسٹریلیا ،کینڈا،سعودی عرب ، متحدہ امارات اور ملائشیا سمیت دیگر ممالک میں فوری ویزہ اور ہینڈسم سیلری کے اشتہارات نظر آرہے ہیںجبکہ یورپین ممالک کی نیشنلٹی کا خواب سب سے مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے۔ حصول پاسپورٹ کیلئے لگی لمبی قطاریں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہر کوئی پاکستان چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتا ہے۔ روشن مستقبل اور معاشی بہتری کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے بیرون ملک جانے کے خواہشمند نوجوان اکثر ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں،جو انھیں بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر بیرون ملک بھیجوانے کا جھانسہ دے کراپنے جال میں پھنسالیتے ہیں۔سادہ لوح لوگوں کو لوٹنا’’ فراڈی حضرات‘‘کا انتہائی آسان روزگار اور مفید مشغلہ بن چکا ہے۔ ایک بندہ ’’وزٹ ویزہ‘‘ پر دبئی کیا چلا جاتا ہے وہ واپس آتے ہی ویزوں کی ’’لوٹ سیل ‘‘لگا دیتاہے اور بیرون ملک بھجوانے کا دھندہ شروع کر دیتاہے۔ بیرون ملک جانے والے افراد کی اکثریت دیہات اور قصبوں سے ہوتی ہے اور دیہاتی لوگ اپنی سادگی کی وجہ سے شہر کے کسی رجسٹرڈ ادارے کی بجائے علاقے کے افراد کو ترجیح دیتے ہیں،مگر یہ پہلو انھیں لُٹنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے ہی حصول زر کی ہوس میں پرائے ہوچکے ہیں۔جہاں تک شہر کی رجسٹرڈمین پاورز کمپنیوں کی بات ہے تو ان میں سے بھی نام نہاد رجسٹرڈ بڑے بڑے اداروں کے کرتوت اتنے ہی چھوٹے ہیں۔ پاکستان میں ہرسال ہزاروں افراد ان فراڈیوں کے ہاتھوں لٹ جاتے ۔’’تعلق خراب نہ ہو‘‘’’ وہ بڑے لوگ ہیں ان سے لڑ نہیں سکتے‘‘’’ان کی بہت پہنچ ہے‘‘ جیسے عوامل کی وجہ سے متاثرین کی بڑی تعداد چپ سادھ لیتی ہے اور اپنی رقوم کی واپسی کیلئے دربدر دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ فراڈیئے آج ،کل، پرسوں کے بہانے بنا کر مہینوں ٹرخاتے رہتے ہیں اور پھر ’’پول‘‘ کھل جانے کے بعد پیسوں کی واپسی کیلئے یہ کہہ کر لمبا ٹائم فریم دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی فراڈ ہو گیا ہے۔ فراڈئیے جو اپنی مستقل ہڈ حرامی کی عادت کی وجہ سے محنت سے رزق ِ حلال کا ایک روپیہ کمانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔’’ہمارے جوتے ہمارے سر‘‘کے مترادف لوگوںکو کروڑوں کا چونا لگانے کے بعد اس میں سے کچھ رقم پولیس ، ایف آئی اے اور صاحب اقتدار لوگوں کو کھلا کر’’ بڑے تعلقات والے ‘‘بن جاتے ہیں اور یوں ان فراڈیوں پر قانون کے لمبے ہاتھ نہیں پہنچ پاتے۔خون پسینے اور محنت سے کمائے لاکھوں روپے اجاڑنے والے غریب افراد جو بیرون ملک جا کر ڈالر اور درہم کمانے کے خواب دیکھتے ہیں،بیچارے لٹنے کے بعد روپے روپے کیلئے ترستے نظر آتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،ستم ظریفی یہ ہے کہ بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد سے لاکھوں روپے بٹورنے کے بعد کچھ انسانیت دشمن عناصر دولت کی ہوس اور لالچ میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ جیسی گھٹیا اور شرمناک حرکات میں ملوث ہو کر ہزاروں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ائیرپورٹس پر ایجنٹس کے طاقتور نیٹ ورک اور ایف آئی اے کی کرم نوازیوں سے چھوٹے اور ’’لو پروفائل‘‘ ممالک کیلئے بغیر پوچھ گچھ ایسے افراد کی بھی امیگریشن کلئیر کردی جاتی ہے جن کو یہ بھی صحیح سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جا کہاں رہے ہیں۔ لیکن ایجنٹس کی ’’ سیٹنگ‘‘ کے باعث ’’یہاں اور وہاں‘‘ دونوں جگہ سے کلئیرنس ہوجاتی ہے۔ بعد ازاں یورپین ممالک میں پکڑے جاتے ہیں اور ڈی پورٹ کردیے جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں بیرونی ممالک سے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ڈی پورٹ کیا گیا۔ لوگوں کو سبز باغ دکھانے والے لٹیرے یہ کہہ کر کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ’’سب سیٹ ہے ‘‘لاکھوں روپے بٹورتے ہیں اور بعد میں کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب کے حوالے کر دیتے ہیں۔غیر قانونی داخلے کے خواہشمند افراد میں سے بمشکل ایک چوتھائی ہی کامیاب ہوپاتے ہیں جبکہ اکثر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا پھر گرفتار ہوکر ذلت و خواری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف اور نگران حکومت سے گزارش ہے کہ ان ایجنٹس اور ان کی سہولتکاری میں ملوث ایف آئی اے کے اہلکاروں اور سرپرستی کرنے والے افرادکی نشان دہی کی جائے اور اس گھٹیا جرم کے مرتکب افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی انسانی سمگلنگ جیسے انسانیت سوز دھندے کا سوچے بھی نہیں۔ایسے میںہمیں بھی اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ نہ صرف نوسربازوں سے ہوشیار رہنا ضروری ہے بلکہ دولت کی ہوس میں اندھے ہو کر غیر قانونی راستے اختیار کرنے سے باز رہنا ہو گا۔نوجوانوں کو مایوس ہونے کی بجائے خود پر اور موجودہ سیاسی و عسکری قیادت پر یقین کرتے ہوئے وطن عزیز میں رہتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔کسی بھی دوسرے ملک میں تیسرے درجے کے شہری بننے سے اپنے وطن میں عزت و اکرام کے ساتھ اپنے پیاروں کے ساتھ رہ کر محنت کریں یقینا یہاں باہر سے زیادہ اچھے مواقع موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا اور ہر گلی محلے میں قائم ان ناجائز مین پاورز سینٹرز کو فی الفور بند کیا جائے اور ایسے عناصر کو پابند سلاسل کر کے قانونی کاروائی عمل میں لاتے ہوئے سخت سے سخت سزا دی جائے تا کہ آئندہ کسی غریب کی زندگی بھر کی کمائی بڑے تعلقات والے فراڈئیے نہ کھا سکیں اورآنکھوں میں کامیابی کے سنہرے خواب سجانے والے نوجوان کسی انسانی سمگلر کے ہتھے چڑھ کر زندگی بھر کیلئے غلام نہ بن جائیں ،نہ ایک ایک پیسہ جمع کر کے بیرون ملک بھیجنے والے والدین اس بات سے لاعلم ہوں اور ان کے پیارے کسی کنٹینر میں بجلی کے کرنٹ سے بھیانک موت مر گئے ہوں۔