نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکہ یا سعودی عرب کے تحفظات پاکستان کا مسئلہ نہیں، پائپ لائن پر ہر فیصلہ ملکی مفاد میں کیا جائے گا۔نائب وزیر اعظم اسحاقڈار نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے ان خیالات کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے۔گیس پائپ لائن ایران سے زیادہ پاکستان کی ضرورت بن چکی ہے،اسحاق ڈار کے مذکورہ دو جملوں کا تجزیہ کریں تو سامنے کچھ رکاوٹیں آتی ہیں جن کا تعلق امریکہ اور برادر ملک سعودی عرب سے دکھائی دیتا ہے۔پاکستان میں سعودی عرب کو ایک بے لوث دوست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جناب اسحاق ڈار سے پہلے کبھی گیس پائپ لائن کے ساتھ سعودی عرب کا نام نہیں لیا ۔نئی پیشرفت کی صورت میںانہیں اس معاملے پر پارلیمنٹ کی رہنمائی لینی چاہئے ۔ توانائی ایک طرف صنعتی اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے ، دوسری طرف گھریلو استعمال کے لیے درکار ہوتی ہے۔پاکستان میں لکڑی کا ایندھن ختم ہو رہا ہے ۔لوگ گھروں میں اب گیس سے کھانا پکاتے ہیں۔ قدرتی گیس عالمی سطح پر توانائی کا تیزی سے بڑھتا ہوا بنیادی ذریعہ ہے۔ 2002 اور 2025 کے درمیان قدرتی گیس کی کھپت میں تقریباً 70 فیصد اضافے کا امکان ہے،پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں گیس کی طلب میں زیادہ اضافے کی توقع ہے۔ دنیا بھر میں قدرتی گیس کی کھپت میں 2002 سے 2025 تک سالانہ اوسطاً 2.3 فیصد اضافہ ہوگا، اس کے مقابلے میں تیل کی کھپت کے لیے 1.9 فیصد اور کوئلے کی کھپت کے لیے 2.0 فیصد کی سالانہ متوقع شرح نمو ہو گی۔ دنیا بھر میں قدرتی گیس کی طلب میں کل اضافی نمو کا تقریباً نصف حصہ الیکٹرک پاور سیکٹر کا ہے۔ جنوبی ایشیا توانائی کی عالمی منڈیوں کے لیے اہم ہے کیونکہ یہاں 1.5 بلین لوگ رہتے ہیں اور توانائی کی طلب میں تیزی سے اضافہ کا سامنا کر رہا ہے۔ بھارت کے بعد توانائی کی طلب کے لحاظ سے پاکستان اور بنگلہ دیش سب سے بڑے جنوبی ایشیائی ممالک ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اقتصادی سرگرمیوں اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں توانائی کی کھپت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آج جنوبی ایشیائی ممالک کو درپیش مسائل میں توانائی کی طلب اہم ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں توانائی کی کھپت 2006 میں توانائی کی کھپت کے مقابلے میں 2010 میں دوگنی ہوگئی ۔ پاکستان کا توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ قدرتی گیس ہے، جس کی طلب اور درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اس وقت قدرتی گیس کی فراہمی پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا 49 فیصد پورا کرتی ہے۔ یکم جنوری 2005 تک، پاکستان کے پاس قدرتی گیس کے ثابت شدہ ذخائر کے 26.9 ٹریلین کیوبک فٹ تھے۔ بعد ازاں جو نئے ذخائر سامنے آئے ان سے استفادہ کی صورت پیدا نہیں کی جارہی۔ آئی پی گیس پائپ لائن منصوبہ ایران اور پاکستان کے درمیان 1994 سے زیر بحث ہے۔ ایران نے پاکستان کے ساتھ 1995 میں ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بعد ازاں ایران نے پاکستان سے بھارت تک پائپ لائن کو توسیع دینے کی تجویز دی اور فروری 1999 میں بھارت کے ساتھ ایک ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ یوں اس منصوبے کو ایران-پاکستان-انڈیا (آئی پی آئی) گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا اور بہت سے ماہرین نے اسے امن اور خوشحالی گیس پائپ لائن قرار دیا۔ پاکستان، بھارت اور ایران کے حکام نے اس پرکئی ملاقاتیں کیں اور قیمتوں اور دیگر متعلقہ امور پر اتفاق کیا۔اپریل 2008 میں ایران نے عوامی جمہوریہ چین کی شرکت میں دلچسپی ظاہر کی۔ اگست 2010 میں ایران نے بنگلہ دیش کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی دعوت دی ۔2008 میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کیے اور اگلے سال اس نے زیادہ قیمتوں اور سیکورٹی کے مسائل کا بہانہ بنا کر اس منصوبے سے دستبرداری اختیار کر لی ۔ تاہم مارچ 2010 میں بھارت نے پاکستان اور ایران سے سہ فریقی مذاکرات کے لیے مئی 2010 میں تہران میں اجلاس کا مطالبہ کیا۔ جنوری 2010 میں امریکہ نے پاکستان سے پائپ لائن منصوبے سے الگ ہونے کو کہا۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس منصوبے کو منسوخ کرتا ہے تو مائع قدرتی گیس کے ٹرمینل کی تعمیر اور افغانستان کی واخان راہداری کے ذریعے تاجکستان سے بجلی درآمد کرنے کے لیے منصوبہ درکار ہو گا۔منصوبہ ترک کرنے کی سورت میں بھاری رقم بطور ہرجانہ ادا کرنا پڑے گی، جس کی پاکستان ایرانی قیادت سے متعدد بار مہلت لے چکا ہے۔ ایک تضاد یہ ہے کہ امریکہ اور دوسرے وہ ممالک جو پاک ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت کرتے ہیں وہ پاکستان کی معیشت کو لاحق ان خطرات کو کم لاگت میں کم کرنے میں مدد نہیں دے رہے جو ایران سے گیس ملنے پر کم ہو سکتے ہیں۔ آئی پی گیس پائپ لائن پاکستان کی توانائی کی مجموعی ضرورت کا ایک اہم جزو ہے۔ اس سے پاکستان کو طلب اور رسد کے درمیان فرق کو پْر کرکے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس سے نہ صرف قدرتی گیس کی 1,000 سے 1,500 mcft کی کمی کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ 5000 سے 6000 میگاواٹ بجلی کی کمی کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کو اپنی ضرورت کے بارے میں امریکہ و دیگر معترض ممالک کے ساتھ بات کرنی چاہیئے اور بتانا چاہیئے کہ ایران سے گیس کا حصول کسی دفاعی منصوبے کا حصہ نہیں بلکہ معاشی زندگی کے لئے آکسیجن ہے۔