صدر پاکستان جناب عارف علوی نے کہاہے کہ اس وقت دو کروڑستر لاکھ بچے سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے ۔ حکومت کو کوشش کرکے انہیںتعلیم کی طرف مائل کرنا ہو گا، جس کے لئے کچھ ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔انہوں نے نگران وزیر تعلیم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے دور دراز علاقوں میں تعلیم تک لوگوں کی رسائی بڑھانا ہو گی۔آن لائن تعلیم ملک کے دور دراز علاقوں میں تعلیم پہنچانے میں مدد دے سکتی ہے۔ْسکولوں سے باہر بچوں کو تعلیم دینے کے لئے فجر سے ظہر تک مساجد کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان کو تعلیم کے دائرے میں لانے کے لئے ہمیں غیر روایتی حل سوچنے کی ضرورت ہے۔ہمیںلڑکیوں کو سکول میں پڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔خصوصی بچوں کو دیگر بچوں کے ساتھ تعلیم دینے کے لئے خصوصی بندوبست کی ضرورت ہے۔ملک میں معیاری تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے فروغ ہماری خصوصی توجہ کا محتاج ہے۔ نوجوانوں اور خصوصاً خواتین کو ہنرمند بنانے کے لئے ہمیں خصوصی اقدامات کرنا ہو گے۔انہوں نے کہا کہ جامعات مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق اپنے طلبا کو ہنر سے لیس کریں۔ اس وقت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعات میں داخلہ لینے والوں کی تعداد خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ملک میں اعلیٰ تعلیم کے حامل افراد کی تعداد کو بڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات کرنا چائیے۔ آن لائن لرننگ، مصنوعی ذہانت اور کلائوڈ کمپیوٹنگ ایک اہم موضوع ہے ،جس پر میں کسی دن تفصیل سے لکھوں گا۔ آج بچوں کی بات ہو جائے۔ستائیس ملین بچے سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کر رہے ۔ صدر صاحب ٹھیک کہتے ہیں۔ وہ سہولتیں ملنے کے باوجود سکول کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں۔ ان کے گھروں کے اپنے مسائل ہیں جن میں وہ الجھے ہوئے ہیں۔ لاہور کے قریب ایک گائوں کا سکول تھا۔وہاں آدھی چھٹی کے وقت ہیڈ ماسٹر دروازے پر تالہ لگا دیتا کہ بچے باہر نہ نکل سکیں۔سکول میں گرائونڈ کوئی نہیں تھی۔چھوٹا سا لان اور اسی کے قریب بچے، وہاں سانس لینا بھی مشکل ہوتا۔ہیڈ ماسٹر نے ایک صندوق میں کھانے کی انتہائی سستی چیزیں رکھیں ہوئی تھیں کہ کوئی بچہ خریدنا چاہے تو خرید لے۔ میں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو کہا کہ سکول کے گیٹ کا تالہ کھول دیں۔ بچے گھروں کا چکر بھی لگا لیں گے اور کچھ کھا پی آئیں گے۔میں سمجھا کہ ہیڈ ماسٹر اپنی چیزیں بیچنے کے لئے انہیں باہر نہیں جانے دیتا۔ تالہ کھلا تو بچے خوشی سے چھلانگیں لگاتے غائب ہو گئے۔ آدھی چھٹی کا وقت ختم ہوا تو کوئی بچہ بھی واپس نہ آیا۔ پھر ان کی مائیں آنا شروع ہوئیں کہ میرا بچہ فلاں کلاس میں ہے اس کا بستہ دے دیں۔ وہ چارہ کاٹنے چلا گیا ہے۔ کوئی اپنے باپ کو روٹی دینے چلا گیا، کوئی گھر میں کسی دوسرے کام لگ گیا۔ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ جناب آپ کے کہنے پر میں نے چھٹی دی تھی اب بتائیں کس کی ماں کس کا بستہ لے جائے گی اور کل حساب میں دو ںگا۔یہ صندوق میں میں نے دو ہزار کی چھوٹی چھوٹی چیزیں لا کر رکھی ہوئی ہیں۔ ان بچوں کے پاس پیسے ہی نہیں ہوتے کہ خریدیں۔ پورے مہینے کی سیل دو سو سے کم ہے ، جس سے مجھے ستر روپے کا گھاٹا ہے ۔بچہ دو روپے کی چیز لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس پچیس پیسے ہیں اسی میں خریدوں گا۔ ہم دے دیتے ہیں مگر صرف ایک چیز کہ بچہ خوش ہو جائے۔ ان لوگوں کو پڑھانے کے لئے سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ویسے اب کوئی بچہ صبح سے پہلے واپس نہیں آئے گا، بہتر ہے ہم بھی گھروں کو چلیں۔ میں لاہور کے بھاٹی گیٹ چوک میں کھڑا تھا۔ وہاں رکشائوں کا ہجوم تھا اور ان کو چلانے والے زیادہ تر ڈرائیور بارہ سے پندرہ سال کے نوجوان۔ کوئی پولیس والا یا کوئی دوسرا سرکاری اہلکار، جو وہاں موجود تھے، انہیں نابالغ سمجھ کر پوچھنے کو تیار نہیں تھا۔میں نے ایک بچے سے پوچھا کہ بیٹا، یہ رکشا کس کا ہے اور تم کیوں چلاتے ہو۔ کہنے لگا، یہ رکشا میرے والد کا ہے ، بیمار آدمی ہیں، صبح پانچ بجے سے نو بجے تک چار گھنٹے چلانے کے بعد ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ وہ گھر آتے ہیں تو میں رکشہ لے آتا ہوں۔ اتنی مہنگائی میں رکشہ رک جائے تو گھر کا راشن رک جاتا ہے۔ میں نے بتایا کہ حکومت نابالغ ڈرائیوروں کے خلاف ایکشن لینے والی ہے۔ ہنس کے بولا، کونسی حکومت ، یہاں سارے ڈرائیورمیری عمر کے ہیں اور یہاں ہماری حکومت ہے۔ جس نے ایکشن لینا ہے ، وہ ہمارے گھر راشن بھیج دے ہم رکشہ نہیں چلائیں گے۔ پٹرول پمپ پر ایک بچہ گرم انڈے کا نعرہ لگاتے ہوئے انڈے بیچ رہا تھا۔ عمر آٹھ یا نو سال ہو گی۔ میں نے پوچھا، بیٹا سکول نہیں جاتے۔ کہنے لگا ، پہلے جاتا تھا ، لیکن وقت نہیں ہوتا تھا کہ سکول کا کام کر لوں ۔چنانچہ کام نہ کرنے پر ماسٹر بہت مارتا تھا۔ تو امی نے کہا کہ سکول چھوڑ دو۔ میں نے اس سے تفصیلی بات کی وہ چھوٹا سا بچہ گھر کا واحد کفیل تھا۔ گھر میں اس کی تین بہنیں اور ماں تھی، باپ فوت ہو چکا تھا۔ان سب کو زندہ رہنے کے لئے اس بچے کا دن رات کام کرنا بڑا ضروری تھا۔ وہ صبح کسی دکان پر کام کرتا اور شام گھر پر پہنچتے کھانا کھا کر انڈے بیچنے اس پٹرول پمپ پر آجاتا۔عام طور پر وہ انڈے بیچ کر بارہ بجے تک فارغ ہو جاتا مگر کبھی رات کے تین بج جاتے اور مجبوری میں وہ چند انڈے واپس لے کر چلا جاتا یا پٹرول پمپ کے ملازم کچھ سستے خرید لیتے۔ہماری بے حس حکومتوں نے ایسے بہت سے بچوں کا بچپن ان سے چھین لیا ہے۔ انہیں بچپن کے لاڈ پیار ، کھیل کود اور تعلیم کی اہمیت کا پتہ ہی نہیں۔ ٍبناب صدر صاحب!یہ تو چند داستانیں ہیں مگر آپ کسی طرف نکل جائیں چپے چپے پر ایسی کئی داستانیں آپ کو ملیں گی۔ لوگوں کے حالات بہت تلخ ہیں۔کوئی تعلیمی یا سماجی انقلاب اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک آپ اس ملک میں معاشی انقلاب نہیں لائیں گے۔ روٹی انسان کی بنیادی ضروت ہے ۔ انسان کو کھانے کو آسانی سے ملنا شروع ہو جائے تو وہ بہت سی دیگر باتوں کا بھی سوچتا ہے۔ آپ صرف حکومت کو معاشی بہتری کی ترغیب دیں ۔معیشت کی بہتری سے ملک میں ہر پہیہ خود بخود آپ کو چلتا نظر آئے گا۔