گزشتہ سال9اپریل سے آج 11اپریل تک کم وبیش ایک سال بیت گیا جب عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں پر مشتمل ’’پی ڈی ایم‘‘ اتحاد نے حکومت بنائی۔ اس تحریک کو لانے کی پس پردہ بڑی وجوہات میں ملک میں مہنگائی اور عام آدمیوں پر اس کے اثرات کو قرار دیا گیا۔تاہم اس کے برعکس گزشتہ ایک برس کے دوران سیاسی عدم استحکام اور بگڑتی معاشی صورتحال نے ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان کو جنم دیا۔یعنی اتحادی حکومت کے ایک سال کے دورِ میں مختلف معاشی اشاریوں میں ہوشربا تنزلی دیکھی گئی جن میں روپے کی قدر میں زبردست کمی، ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں اور شرح سود کا ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچنا سرفہرست ہے۔ سب سے پہلے ڈالر کی بات کریں تو گزشتہ سال اپریل میں ایک ڈالر 180سے 185کے درمیان ٹریڈ ہو رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور آج ڈالر کی قیمت 285 روپے تک پہنچ چکی ہے۔یعنی شہباز حکومت کے قیام کے ایک سال میں ڈالر کی قیمت میں ایک سو روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔آپ برآمدات کی بات کر لیں، کووڈ 19کے بعد برآمدات میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا، لیکن 2022 کی دوسری سہ ماہی کے قریب انڈیا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات میں کمی آئی اور اب یہ فرق 20 فیصد سے زیادہ ہے۔مطلب پی ڈی ایم حکومت نے جو کیا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ انھوں نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے سٹیٹ بینک کے گورنر کو ہٹا دیا، اپنے ہی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ،جو میری رائے میں اسحاق ڈار کے مقابلے میں زیادہ معاشی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں، کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی اور بالآخر قابلیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان کی جگہ وزیر اعظم کے قریبی رشتہ داراسحاق ڈار کو وزیر خزانہ تعینات کر دیا۔ پھر اسی ایک سال میں پاکستان کی دنیا بھر میں ’’درآمدات‘‘ کے حوالے سے جگ ہنسائی ہوئی، پاکستانی پورٹ پر ہزاروں کنٹینر کھڑے ہیں مگر ہمارے پاس دینے کے لیے ڈالر نہیں ہیں۔ اپریل 2022 میں موجودہ حکومت کے قائم ہونے کے بعد بیرونی فنانسنگ کے شعبے میں مطلوبہ فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔ویسے تو ملک کے لیے درآمد ات اچھی نہیں ہوتیں، مگر ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے اشیائے ضروریہ بھی ملک میں ناپید ہوگئیں جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آگیا۔ پھر ڈالروں کی کمی کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے درآمدات کی ایل سی نہ کھولنے کی وجہ سے گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی ملکی بندرگاہوں پر درآمدی کارگو کے کنٹینرز پھنسنا شروع ہو گئے اور موجودہ سال کے فروری تک ہزاروں کی تعداد میں ایسے کنٹینرز پھنس گئے جن کی ایل سیز ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہ کھل سکیں۔ پھر آپ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی بات کر لیں۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق اپریل 2022 میں ملک کے پاس مجموعی طور پر 16.4 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تھے جن میں سٹیٹ بینک کے پاس تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ذخائر تھے۔ملک کے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں کی وجہ سے ان میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی اور مارچ 2023کے مہینے کے اختتام تک یہ ذخائر 9.7 ارب ڈالر رہ گئے جن میں مرکزی بینک کے پاس 4.2 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5.5 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔پھر آپ شرح سود کی بات کر لیں تو اس وقت شرح سود ریکارڈ 21فیصد پر موجود ہے۔ گذشتہ برس حکومت کی تبدیلی سے قبل ملک میں شرح سود 12.5 فیصد پر تھی جس میں ایک سال میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کسی بھی حکومت کے پورے پانچ سال یا اس سے کم مدت کے دور میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔پھر آپ پٹرولیم مصنوعات کی بات کرلیں تو شہباز حکومت نے اس کام میں بڑی مہارت اور سرعت دکھائی۔ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت پٹرول کی قیمت 149.86 روپے لیٹر تھی جب کہ ڈیزل کی قیمت 144.15 روپے تھی۔حکومت کی جانب سے ان قیمتوں کو ڈیڑھ مہینے تک برقرار رکھا گیا تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط کے تحت اس سبسڈی کے خاتمے کے بعد 26 مئی 2022 کو پٹرول و ڈیزل کی ایک لیٹر قیمت 30، 30 روپے بڑھا دی گئی۔ایک ہفتے بعد تین جون 2022 کو پٹرول و ڈیزل کی قیمتیوں میں ایک بار پھر فی لیٹر 30، 30 روپے اضافہ کر دیا گیا۔یعنی یہ اضافہ ہوتے ہوتے آج272روپے فی لیٹر پر رکا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت میں موجودہ حکومت نے 122.14 روپے کا اضافہ کیا۔ پھر آپ مہنگائی کی بلند شرح کی بات کر لیںتو ایک سال کی مدت میں 35 فیصد سے زائد ہو کر گذشتہ پانچ عشروں کی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اپریل 2022 میں حکومت کی تبدیلی سے پہلے مارچ کے مہینے کے اختتام پر وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی ۔ جنوری 2023 میں مہنگائی کی شرح میں معمولی اتار چڑھاؤ جاری رہا تاہم فروری کے مہینے میں یہ شرح 31 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا جو 35.4 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ مطلب بقول شاعر کس کو سناؤں حال غم کوئی غم آشنا نہیں ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں خیر یہ بات سب جانتے ہیں کہ پچھلے 365 دن ہم پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ لوگ اب اپنے بارے میں پریشان ہیں، گزارہ کیسے ہوگا‘ امن و امان کی کیا صورت بنے گی‘ گاڑیوں اور گھروں کی بات چھوڑیں‘ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی خریداری عام لوگوں کے ہوش اْڑا دیتی ہے۔ ہم اور ہماری قوم کئی سانحوں‘ المیوں اور بحرانوں سے گزری ہے‘ مگر تیرہ جماعتی سرکار نے معاشرے اور معیشت کو جس تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا‘ سوچتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم تو بے بس ہیں اور عوام بھی اپنے جیسے بے بس جبکہ وہ جو کچھ اس ملک اور قوم کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں ان کو بھی بے بس پاتے ہیں۔ طاقت کے اس کھیل کے ہم تماشائی رہے ہیں۔ الغرض ہم اس صورتحال سے نکل بھی سکتے ہیں۔ سیاسی منشا‘ سنجیدگی اور خلوص شرط ہے۔ سیاسی خزانے کی کنجی ایک ا ور صرف ایک ہی ہاتھ میں ہے‘ باقی کہانیاں ہیں۔ آنے والے دنوں کا جو بھی خاکہ بنے‘ فیصلے اسی جگہ پر ہوں گے۔ حالات کا رْخ جو بھی متعین ہو‘ ہر پاکستانی اور ہمارے جیسے سیاست کے طالب علموں کی نظریں اسی جانب اٹھیں گی۔ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے باہمی اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ یہ باہمی اعتماد ’’فری اینڈفیئر‘‘ الیکشن کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر ایک بار تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوگئے تو اُس کے اگلے پانچ سال میں آپ حقیقی تبدیلی دیکھیں گے اور یقینا یہ سلسلہ چل نکلے گا!