عصر جدید کا دعویٰ ہے کہ فکر و فن میں بیٹا باپ سے پہلے پیدا ہوگا کافی حد تک ایسا سچ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے مگر یہ کون طے کرے گا کہ کیا ایسا فکر و فن مفید اور دیرپا بھی ہے۔ پاکستان میں اس وقت دو نسلیں چل رہی ہیں 80 کی دہائی کی نسل اور موجودہ نسل دونوں میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ موجودہ نوجوان نسل کے پاس غیر نصابی علم کا ذخیرہ ہے جو اپنے سے پہلے والی نسلوں کو دقیانوسی تصور کرتے ہیں اور پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ دار بھی انہیں سمجھتے ہیں۔ مذہب سے ادب سے سخن سے بے اعتنائی کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے جو اساتذہ علماء محقق دانشور ہمیں سمجھا اور سکھا چکے ہیں وہ اس نسل کے سامنے بالکل بے بس ہیں۔ کافی حد تک نئی نسل کا نقطہ نظر درست ہے مگر اظہار خیال کا رویہ ناقابل برداشت ہے دلیل سے تو وہ بات کرتے ہی نہیں۔ سوشل میڈیا نے سب کچھ ایک ساتھ ایک دم سے عیاں کر دیا بہت سے سوالات جن پر ہمیں خاموشی کا درس دیا گیا اور ہم خاموش ہوئے اور شاید وہ غلط بھی تھا موجودہ نوجوان اس پر بے لاگ تبصرہ کر رہے ہیں۔ اگر آج بابا اشفاق، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور دوسرے احباب ہوتے تو کیا تلقین شاہ کو ایسے ہی انہماک سے سنا جاتا اور واہ واہ کی جاتی۔ ہمیں ان کی باتیں ان کی تحریریں حرف آخر لگتی تھیں موجودہ نسل قصے کہانیوں سے صاف انکار کر رہی ہے اور اسے دیوانگی نرگسیت اور خوابوں کی دنیا سے تعبیر کر رہی ہے۔ ایک نوجوان مجھ سے الجھ رہا تھا کہ ان سب احباب نے مزاحمت کا کیا درس دیا؟ تسلیم و رضا صبر و شکر اشرافیہ کے جعلی دکھ سنا کر غریبوں اور مڈل کلاس سے واہ واہ وصول کرتے رہے۔ میں نے بہت کہا کہ وہ ادیب تھے کوئی حریت پسند نہیں فیض، جالب، احمدفراز و دیگران لکھتے تو رہے ہیں مگر پھر وہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں انقلاب کیسے آیا ادیب ہی تو لائے تھے۔ ہم 70 اور80 کی دہائی کی نسل سب سے بدقسمت نسل ہیں ہماری ہر بات کو نہ صرف رد کیا جا رہا ہے بلکہ تمسخر بھی اڑایا جا رہا ہے۔ بالکل ہم بھی غلط ہو سکتے ہیں ہماری سیاسی وابستگیوں نے ہمارے مذہبی نظریات کے اختلافات نے ہمیں اس نوبت تک پہنچایا ہم کٹر نظریات کے کیوں ہوئے نئی نسل ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری وجہ سے وہ کتنا نقصان اٹھا رہے ہیں اسی وجہ سے نوجوان طبقہ اس ملک سے ہجرت کر رہا ہے یا کرنے کی شدید طلب بھی رکھتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان دو نسلوں میں بہت زیادہ تضاد اور خلا ہے اور اگر دیکھا جائے تو دونوں ہی اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ 70 اور80 کی دہائی والے سمجھتے ہیں کہ وہی سچے اور حقیقی ہیں دو ہزار کے بعد آنے والے ہر قسم کی پابندیوں سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے 70اور 80 کی دہائی والے کوئی انقلاب نہیں لا سکے بظاہر بھولپن کی ایک شکل ہیں باتیں کی ہیں عملی اقدامات کچھ بھی نہیں تقسیم در تقسیم کا شکار رہے۔ ان کے ادیب دانشور دینی رہنما انہیں ماورائی توقعات سے روشناس کراتے رہے کہ یہ ملک خاص مقصد کے لیے بنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور ایک دن اسے پوری دنیا کی حکمرانی ملے گی بھلا کوئی ملک فضول مقصد کے لیے بھی بنا ہے ان خرافات کی بنیاد اس وقت کے عالمی اور علاقائی حالات تھے اور ہم باقاعدہ اس کے فریق تھے۔ بدقسمتی سے اس وقت ایسی کوئی فکری تحریک بھی نہ چلی جو اس کے مضمرات سے آگاہ کرتی یا بتاتی کہ ایسا ممکن ہی نہیں یہ ہمیں لالی پاپ دیا جا رہا ہے اس وقت کے بھی زمینی حقائق صاف نظر آرہے تھے کہ یہ عالمی غاصبیت کی جنگ ہے ہماری اوقات سے بڑا جھگڑا ہے اور سرا سر خسارے کا سودا ہے مگر کیا کہا جائے ہمارے خواب دکھانے والے تو آج بھی ایسا کرنے پر آزاد ہیں۔ اب نئی نسل کیا چاہتی ہے وہ ہم سے بھی ذرا دو ہاتھ آگے ہے وہ بھی راتوں رات ترقی کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر چیز کو ختم کر دیا جائے سب سے خوفناک بات ان کا باغیانہ رویہ ہے نہ صرف وہ معاشرے میں اس کا اظہار کرتے ہیں بلکہ گھروں میں بھی وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ماں باپ اساتذہ شدید کرب میں ہیں کہ کیا کریں کہ کیسے انہیں سمجھائیں ڈرتے ہی نہیں ہیں، اکتائے ہوئے ہیں۔ بیزاری کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ آپ بدتمیزی بدتہذیبی کرنے لگ جائیں ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ راتوں رات ہمارے حالات ٹھیک ہو جائیں۔ ہزاروں سال سے اس خطے میں انقلاب نامی چیز ثابت نہیں تخیل میں تو یہاں بہت سے انقلاب آچکے ہیں۔ اغیار کا ادب اور ادیب اپنے وقت میں بے مثال رہے ہیں لیکن انہوں نے بڑے دکھ اور کرب جھیلے ہیں لاکھوں لوگ قتل و غارت کی نظر ہوئے وہاں ہم سے زیادہ جہالت تھی کتابوں سے نظریہ اخذ کیا جاسکتا ہے مگرضروری نہیں وہ ہر جگہ کارگر ثابت ہو۔ اس وقت دانشور سامنے آئیں اس ملک کے صاحبان اختیار سوچیں کہ کیسے بحران سے نکلنا ہے مگر دانشوروں کو صدارتی ایوارڈ یا واہ واہ سے فرصت ہو تو کچھ اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ بتائیں۔ آپ انرجی کا بحران ختم کریں انڈسٹری چلائیں روزگار کے ذرائع پیدا کریں کاروبار پر توجہ دیں یہ نوجوان خود ہی مصروف ہو جائیں گے اور ہماری سابقہ پہاڑ جیسی غلطیوں کا ازالہ بھی ہو جائے گا ۔ ان کے جذبات بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے اور نوجوانوں کو بھی حب الوطنی کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے وطن ہے تو ہم ہیں!