جھوٹ اور پروپیگنڈہ کا ایک جواب یہ ہوتا ہے کہ فوری طور پر حقائق اور تاریخ کو درست شکل میں اجاگر کیا جائے۔بھارت نے 5اگست 2019ء کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے اس کا ایک نیا نقشہ بنانے کی کوشش کی۔بھارت نے ایک تسلیم شدہ متنازع علاقے کا ایک ایسا نقشہ جاری کیا جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا حصہ دکھایا۔ 4اگست 2020ء کو حکومت پاکستان نے ملک کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا۔ اس نقشے میں پاکستان کے موقف اور کشمیری آبادی کی خواہشات کو مدنظر رکھ کر بتایا گیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان نے اس نئے نقشے کو کشمیری قیادت کے مشورے سے ترتیب دیا۔یہ نقشہ سکولوں اور کالجوں میں استعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ بھارت کی جانب سے نقشے میں تبدیلی کی کوشش مستقبل کی منصوبہ بندی کی علامت ہے۔ حال ہی میں بھارت کی جانب سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر تیجس لڑاکا طیارے تعینات کئے گئے ہیں۔ بھارت فرانس سے خریدے رافیل جنگی طیارے بھی کنٹرول لائن پر لانے کا خواہاں ہے۔ کئی طرح کی جدید توپیں پہلے ہی اس محاذ پر موجود ہیں۔گویا پاکستان کی سلامتی اور آزادی کو بھارتی جارحیت کا سامنا ہے۔ آج جب ہم یوم آزادی منانے جا رہے ہیں تو نئی نسل کو جاننا چاہیے کہ انہیں جو پاکستانی ملا ہے اس میں سرکریک کا مشرقی حصہ شامل ہے‘ بھارت سرکریک کے بعض حصوں کے متعلق ابہام پیدا کر کے پاکستان کے خصوصی اکنامک زون پر قبضہ کا سوچ رہا ہے۔پاکستان کے سیاسی نقشے کو مزید اجلا دیکھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ قبائلی علاقے اب خیبر پختونخوا کے نقشے میں شامل ہو چکے ہیں۔قبائلی عوام کے مطالبے پر یہ فیصلہ ہوا،مقامی آبادی کے لئے امن و امان، صحت و تعلیم کی سہولیات پیدا ہوئیں اور اس سے ریاست کو انتظامی امور میں آسانی ملی۔پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کی اہم بات یہ تھی کہ اسے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے حمایت حاصل ہے۔ سیاسی نقشہ قانونی دائرہ اختیار، سیاسی یا انتظامی حدود کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نقشہ ملک کی سرحدیں یا ذیلی قومی لائنیں ہو سکتی ہیں جیسے کاؤنٹیز، ریاستیں، صوبے، شہر یا وارڈ۔ سیاسی نقشے کثرت سے مردم شماری کے اعداد و شمار اور انتخابی نتائج کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔سیاسی نقشہ ایک ایسا نقشہ ہے جو قوموں، ریاستوں، اور بڑے شہروں کی سیاسی سرحدوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک سیاسی نقشہ علاقائی سماجی و سیاسی نمونوں کا تعین کرنے میں مدد کر سکتا ہے جو حکومت کی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سیاسی نقشے اکثر کاغذ یا دیگر فزیکل میڈیا پر چھاپے جاتے ہیں، لیکن انہیں ڈیجیٹل طور پر بھی بنایا جا سکتا ہے اور آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاسی حوالہ جات کے چارٹس کو تلاش کرنے کیلئے لاکھوں لوگ روزانہ سرچ انجن استعمال کرتے ہیں۔ "امریکہ کا نقشہ،" "دنیا کا نقشہ،" "یورپ کا نقشہ، " اور "فلوریڈا کا نقشہ" انٹرنیٹ پرسب سے زیادہ تلاش کئے جاتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے موجودہ جغرافیہ کو ظاہر کرنے کے لیے ہزاروں مختلف سیاسی حوالہ جات کے نقشے بنائے گئے ہیں۔ پورے ملک کے نقشے، 50 ریاستوں میں سے ہر ایک کے نقشے، اور 3142 کاؤنٹیوں کے نقشے ہیں جو ریاستوں کو بناتے ہیں (لوزیانا میں پیرش اور الاسکا میں بورو)۔ کاؤنٹیز، بورو اور پیرشز کی اکثریت اس سے بھی چھوٹی سیاسی تقسیموں میں بٹی ہوئی ہے۔ صرف ریاست ہائے متحدہ کا جغرافیہ دکھانے کے لیے بے مثال سیاسی نقشے تیار کیے گئے ہیں۔ سیاسی نقشے کی طرح ایک فزیکل یا طبعی نقشہ ہوتا ہے۔طبعی نقشہ زمین کی قدرتی خصوصیات کی نمائندگی کرتا ہے جیسے پہاڑ، سطح مرتفع، میدانی علاقے، دریا، سمندر وغیرہ۔ طبعی نقشوں کو ریلیف میپ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے لوگ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ان کی حکومتیں پورے ملک کی آبادی کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ کالونیوں کی سرحدوں کا شائد ہی کسی قومی (یا اقتصادی یا داخلی سیاسی) معیار سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لہٰذا جب ڈی کالونائزیشن واقع ہوئی تو بہت سے نئے بنائے گئے ممالک مصنوعی تصور کئے گئے اور اس طرح اندرونی تقسیم کا شکار ہوئے۔ آج کسی ملک کے اندر کسی گروہ کے لیے خود ارادیت حاصل کرنے کے لیے، اس ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں، خود ارادیت کے ذریعے ایک ملک بنانے کا فطری مطلب ہے کہ پہلے سے موجود ملک سے علاقے اور لوگوں کو الگ کر لیا جائے۔بھارت اس سے بچ سکتا تھا لیکن اس کے بانیوں نے خود کو غاصب بنا کر ایک مستقل مسئلہ گلے ڈال لیا۔ حق خقد اختیاری کے لئے جہاں بہت سے عالمی رہنماؤں نے کھلے عام ریاستوں کے ٹوٹنے کا مطالبہ کیا، وہیں چند لوگ جدید ممالک کے ٹوٹنے کی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے جدید ممالک کو اندرونی تقسیم کا سامنا ہے اس کا مطلب ہے کہ کچھ حکومتیں بیرون ملک نئے ممالک کی تخلیق کو قبول کرنے کی خواہاں ہیں، خوف سے کہ ایسا کرنے سے ایک ایسی مثال قائم ہو سکتی ہے جو ان کی اپنی سرحدوں کو کھولنے کا باعث بنتی ہے۔ نقشے دنیا کو سمجھنے کا طاقتور ذریعہ ہیں۔جس علاقے میں تنازعات زیادہ ہوں گے وہاں دیکھا گیا ہے کہ نقشوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔تنازع کا ہر فریق الگ سیاسی نقشہ اٹھائے پھرتا ہے‘ مشرق وسطیٰ میں 40نقشے پائے جاتے ہیں۔ جن میں خطے کی تاریخ‘ اس کا حال اور کچھ تازہ ترین واقعات کی جھلک نظر آتی ہے۔کہنے کو قدیم ہندوستان کی دراوڑی‘ آرین‘ یونانی‘ بدھ‘ ہندوشاہی‘ مغل اور انگریز سلطنتوں کے نقشے مختلف رہے لیکن 14اگست 1947ء کو ہندوستان کا دو الگ‘ آزاد اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم ہونا نئے دور کی نظریاتی اور معاشی تقسیم کا نقشہ تھا۔پاکستان نے پرامن رہ کر اس نقشے کو تسلیم کیا لیکن بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے تنازع پیدا کر دیا۔یہ تنازع 4جنگوں کی بنیاد بن چکا ہے۔آزاد پاکستان کی نئی نسل کو ملک کا سیاسی نقشہ جاننے کی ضرورت ہے۔آزادی کا تحفظ اس تصور کا تحفظ کرنے سے ہے جو قائد اعظم نے دیا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘