چند بر س قبل بھارتی دارالحکومت دہلی میں صحافیوں کی ایک انجمن کا الیکشن ہو رہا تھا،جس میں ایک سینئر صحافی کپور صاحب کو دوستوں نے صدارتی کرسی پر بٹھانے کیلئے میدان میں اتارا۔ وہ اس کے اہل بھی تھے۔ ان کے مقابل دو اور امیدوار بھی تھے، مگر چونکہ کپور صاحب خاصے سینئر اور سبھی کے کام آنے والے مقبول صحافی تھے، اس لئے ان کا جیتنا ایک رسمی کارروائی لگتی تھی۔پریس انفارمیشن بیورو میں کسی صحافی کا کام پھنسا ہو ہوتا تھا، تو کپور صاحب حاضر۔کسی وزیر کے ساتھ ملاقات طے نہیں ہوتے تھی، تو کپور صاحب چٹکیوں میں یہ مسئلہ حل کردیتے تھے۔ مگر ووٹنگ کرتے وقت احباب کے دل میں نہ جانے کیسے یہ خیال آیا، کہ کپور صاحب تو جیت ہی رہے ہیں، کیوں نہ ایک آدھ ووٹ باقی دو افراد کو دیا جائے، تاکہ ان کی سبکی نہ ہوجائے۔ اس یقین کی وجہ سے کپور صاحب نے بھی کیمپینگ ڈھیلی رکھی تھی۔ جب نتائج آگئے، تو معلوم ہوا کہ کپور صاحب کو بس چار ووٹ ملے ہیں۔ کپور صاحب نے پریس کلب آنا چھوڑ دیا،جن احباب نے ان کو مجبور کرکے انتخابات میں اتارا تھا وہ ان سے ناراض ہوگئے۔ایک دن جب ملے تو بتایا کہ تین ووٹ کا تو پتہ ہے، کس نے دیے، مگر یہ چوتھا ووٹ ، جس نے دیا، اگر پتہ چلے تو اسکی خوب پٹائی کروں گا کیونکہ اس کے نام پر ابھی تک کئی سو افراد بتا چکے ہیں، کہ انہوں نے ووٹ دیا تھا۔ یہی حال کچھ 8 فروری کو ہوئے پاکستانی انتخابات کا بھی ہوا۔ پاکستانی انتخابات کے نتائج نے پڑوس میں بھارت میں بھی مبصرین کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔انتخابات سے قبل تمام اشارے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی برتری کی پیشن گوئی کر رہے تھے، کیونکہ اس بار ایک کھلا میدان ان کے حوالے کرکے ان کے حریفوں کو چت کر دیا گیا تھا۔ وہ یا تو جیلوں میں یا مفرور تھے۔ گو کہ جوڑ توڑ سے اقتدار کا ہما نواز شریف کے سر پر ایک بار پھر بیٹھ سکتا ہے، مگر اس حکومت میں اقبال موجود نہیں ہوگا۔ اس کے پائے دیمک زدہ حلیفوں کی بیساکھیوں کے رحم و کرم پر ہونگے۔ ان حالات میں ایک طاقتور اپوزیشن قابل رشک پوزیشن میں ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ 1996ء کے انتخابات میں پہلی بار اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) 161سیٹیں لیکر پہلے نمبر پر آگئی تھی، مگر اقتدار تک پہنچے کیلئے543 رکنی ایوان میں 272سیٹیں لانا لازمی ہوتا ہے۔ کانگریس 140 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔ واجپائی کو صدر شنکر دیال شرما نے حکومت سازی کی دعوت دی، مگر تیرہ دن بعد انہوں نے استعفیٰ دیکر اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔محض 46سیٹوں والی پارٹی جنتا دل نے کانگریس کی مدد سے اقتدار سنبھالا، جس کے لیڈران پہلے دیوی گوڑا اور بعد میں اندر کمار گجرال وزیر اعظم بنے۔ گو کہ اقتدار ا ن کے پاس تھا، مگر ان دنوں غیر ملکی مندوبین سے لیکر افسر شاہی واجپائی کی خاطر مدارت کرتی نظر آتی تھی۔ ان دنوں جب ناوابستہ ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس بھارت میں منعقد ہوا تو وزیر اعظم دیوی گوڑا کے بجائے مندوبین واجپائی کے اردگرد منڈلا رہے تھے۔ اس دوران جب ایک پارلیمانی وفد یورپ کے کسی ملک کے دورے پر گیا ہوا تھا،بی جے پی کے ایک لیڈر آنجہانی پرمود مہاجن اس کے ایک رکن تھے۔ وہ اس دورے کی رودار بتاتے ہوئے کہتے تھے کہ جب ہمارا تعارف ہوتا تھا، تو یہ بتایا جاتا تھا کہ مہاجن بھارتی پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی کے رکن ہیں۔ دوسرا رکن کانگریس سے تعلق رکھتا ہے اور وہ دوسری بڑی پارٹی ہے۔ مگر دونوں اپوزیشن میں ہیں۔ اور تیسرا رکن جس کے پچاس اراکین بھی نہیں ہیں، حکومت میں ہے۔ ان کے میزبان بیچارے چکرا جاتے تھے۔لگتا ہے کہ یہی حال اب شاید پاکستانی سیاست کا ہونے والا ہے۔ واجپائی کو بس دو سال ہی انتظار کرنا پڑا۔ 1998ء کو وہ پہلے تیرہ ماہ کیلئے اور پھر 1999ء میں پھر پورے پانچ سال تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی انٹلجنس بیورو یعنی آئی بی کے سابق نائب سربراہ انیویش موہانانی کے مطابق پاکستانی انتخابات کے نتائج کے سلسلے میں خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی مبصرین کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہو گئیں۔ بھارت میں اپریل اور مئی میں خود عام انتخابات ہونے والے ہیں، اس لئے خفیہ ایجنسیوں نے نواز شریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، نئی حکومت کیلئے سفارشات تیار رکھی ہوئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے امریکہ کے خلاف نفرت سے زیادہ اپنے آپ کو سمجھوتہ نہ کرنے والا پیش کرکے پاکستانی عوام کا دل جیت لیا۔ جنوبی ایشیاء میںخاص طور پر نوجوان نسل ایک اٹل،بے باک اور غیر متزلزل لیڈر کو پسند کرتے ہیں، جس نے جلا وطنی کے بجائے جیل میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف یقینا فوج کی مدد سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کریں گے، مگر اس حکومت کا اعتماد متزلزل ہوگا اور بین الاقوامی طور پر بھی اسکی ساکھ متاثر ہوگی۔ آئی ایم ایف ہو یا کوئی اور غیر ملکی مندوب،وہ حکومت سے زیادہ اپویشن لیڈر کو رام کرنے میں لگے گا،جیسی صورت حال بھارت میں 1996ء سے 1998ء تک تھی یا اسے قبل جب راجیو گاندھی 1989ء سے 1991ء تک اپوزیشن لیڈر تھے۔ پاکستان میں بھارت کے آخری ہائی کمشنر اجے بساریا کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے تجربہ سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ مفاہمت پر مبنی سیاست کرکے سبھی طاقتوں کو ایک پیج پر لاکر فوج کو بھی قائل کرنے کا کوئی راستہ نکال دیں گے۔ اسی طرح ایک اور سابق سفارت کار وویک کاٹجو کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان عوام نے جس طرح کا ووٹ دیا ہے، اس کو دیکھ فوج کو اب داخلی سیاست میں مداخلت سے پرہیز کرکے قومی سلامتی پر ہی توجہ دینی چاہئے۔ پاکستان میں بھارت کے ایک اور سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ان انتخابات نے ان کے اندازے بھی غلط ثابت کردیے۔ ان کے مطابق اگر عمران خان کو سطح کا میدان مل جاتا، تو وہ شاید دو تہائی سے زائد اکثریت لا سکتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کو لانے والوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس دھچکے کے اثرات دیرپا ہونگے۔ فی الحال بغیر منڈیٹ کی حکومت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کیسے معاملات طے کرے گی، ایک مسئلہ ہوگا۔یعنی ان کے مطابق فی الحال پاکستان کے بارے میں فی الحال پر امید ہونا مشکل ہے۔عمران خان کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ وہ فوج کے زیر اثر ہے، اسلئے اس کے بجائے براہ راست فوج سے ہی معاملات طے کئے جائیں۔ مگر اب ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے پاکستان کی نئی حکومت ہوشمندی سے کام لیکر wait and watch کی پالیسی اپنا کر بھارت کے عام انتخابات کے مکمل ہونے تک ملک کے دیگر اداروں اور سیاسی جماعتو ں کے ساتھ ملکر اتفاق رائے پیدا کرے اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک نیز دیگر پڑوسیوں ایرا ن و افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور ایک اقتصادی بلاک کو کھڑا کرنے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کرے، چاہے اس کے لئے کتنی ہی مراعات دینی پڑیں۔