وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایم ڈی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے ملاقات میں پاکستان کو ڈیفالت سے بچانے کے لئے تین ارب ڈالر کا نیا بیل آوٹ پروگرام مانگا ہے۔بعد ازاں بلوم برگ کو انٹرویو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے زر مبادلہ ذخائر مضبوط ہیں۔نقدی کی شرح تبادلہ مستحکم ہے اور عالمی ادارے کے ساتھ مذاکرات کے دوران روپے کی قدر گرنے کا اندیشہ نہیں۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حکومت کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت آئی ٹی اور زراعت کا فروغ چاہتی ہے تاکہ مستقبل میں شرح نمو کو چار فیصد سے اوپر لایا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے متعدد بین الاقوامی اداروں، تنظیموں کے نمائندوںاور امریکی حکام سے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر گفتگو کی۔وزیر خزانہ کی ملاقاتوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ مالیاتی و معاشی اصلاحات کے ضمن میں حکومت کی بھرپور حمایت کے ساتھ امریکہ پہنچے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ ان کے اس پر اعتماد دورے کے نتائج پاکستان کے لئے قرضوں میں کمی ، معاشی بحالی اور ڈیفالٹ سے ہمیشہ کے لئے نجات کی صورت میں برآمد ہوں گے۔ کشیدگی اور تنازعات سے بھرے انتخابی عمل کے بعد یہ دیکھ کر طمانیت محسوس ہوتی ہیکہ نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سیاست اور خزانہ کے امور سنبھالنے کے لئے ایک تازہ چہرہے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ ایک ذہین، قابل اور محنتی پیشہ ور ہیں ، انہیںجے پی مورگن، سٹی گروپ کے ساتھ بین الاقوامی کام کا تجربے ہے ۔اے بی این ایمروبینک کے ساتھ ایچی سن کالج اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے وارٹن سکول آف بزنس کا تعلیمی حوالہ ان کے پاس ہے۔ اگرچہ وہ ایک کٹر ماہر معاشیات نہیں ہوسکتے ہیں، وہآئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران ماہرین اقتصادیات اور مشیروں کے صحیح گروپ کو جمع کر سکتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت فائدہ مند ہوگا اگر ان مشیروں کو سمندر پار پاکستانی ماہرین معیشت کے پول سے تلاش کیا جائے۔ پاکستان پہلے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ وزرائے خزانہ کی خدمات حاصل کرچکا ہے لیکن بعد ازاں نتائج مایوسی کی صورت نکلے ، عام آدمی ان وزرائے خزانہ کی ترجیحات میں کہیں نظر ہی نہیں آیا ۔ توقع ہے کہ محمد اورنگزیب عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مذاکرات میں سب سے زیادہ پسے ہوئے پاکستانیوں کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر معاملات طے کریں گے۔ قومی معیشت کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے، ملک پر قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، اس کی بیرونی مالیاتی ضروریات اس کے دستیاب وسائل سے زیادہ ہیں۔ ڈیفالٹ سے بچنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کو اپنی معاشی کمزوریوں کو دور کرنے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔حکومت کا بنیادی چیلنج ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا اور ٹیکس انتظامیہ کو بہتر بنا کر محصولات کی وصولی میں اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب خطے میں سب سے کم ہے، صرف 1.3 فیصد آبادی انکم ٹیکس ادا کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومتی محصولات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس سے حکومت کے لیے اپنی قرض کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا اور ضروری خدمات کو برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔اس کا اثر نچلے طبقات کو دی گئی مختلف سبسڈیز کے خاتمی کی صورت نکل رہا ہے۔ حکومت کو ٹیکس وصولی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر اور زیادہ ٹیکس دہندگان کو شامل کرنے کے لیے ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینی چاہیے۔غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات اور سبسڈی بجٹ میں کمی کو ترجیح دینی چاہیے۔ ترقیاتی بجٹ ملک کی ضرورت ہوتا ہے لیکن اس کا بڑا حصہ بد عنوانی کی نظر ہو جاتا ہے۔اس خرابی کو روکنا ہو گا ورنہ ہمیں اپنی کوئی بہت بنیادی ضرورت قربان کرنا ہو گی۔ اسی طرح، بجلی اور گیس جیسی ضروری اشیاء کے لیے سبسڈیز نے حکومت کے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کیا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ ان لوگوں کو سہولت دے جن کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے اقدامات کے علاوہ پاکستان کو عالمی منڈیوں میں اپنی مسابقت کو بہتر بنا کر برآمدات پر مبنی ترقی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک طریقہ پیداواری صلاحیت کو بڑھانا اور کاروبار کی لاگت کو کم کرنا ہے۔پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت نسبتاً زیادہ ہے، جس کی وجہ سے دیگر علاقائی معیشتوں کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرنا اور کاروباری طریقہ کار کو ہموار بنانا غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے گا۔سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل یہ ضرورت پوری کر رہی ہے۔اس کونسل کے توسط سے سرمایہ کاری کے عمل میں پاک فوج کی بھرپور مدد حاصل ہے۔سکیورٹی کی ضروریات پاک فوج کے حوالے کر کے حکومت کو ایسی پالیسیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے جو برآمدات کو فروغ دیں اور مقامی کاروباری اداروں کے لیے عالمی سطح پر مسابقت کے لیے برابر کا میدان بنائیں۔ حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ منسلک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ قرضوں کی ذمہ داریوں کی تنظیم نو اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے قرض کے انتظام کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا جا سکے۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز ملک کی خودمختاری کے لیے اہم خطرات ہیں۔ تاہم جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدام کے ساتھ بنیادی اور ساختی اصلاحات کے ذریعے ان چیلنجوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستان خود کو پائیدار اور جامع ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔ اب عمل کا وقت ہے جسے سیاسی اختلافات میںضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔