سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کو باقی ماندہ پاکستان کا صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا تو ’’ہوش و حواس‘‘ بحال ہوتے ہی بھٹو نے آہستہ آہستہ مشرقی پاکستان کو بحیثیت بنگلہ دیش تسلیم کرنے کی ایک خاموش مہم کا آغاز کر دیا۔ اس وقت قوم انتہائی جذباتی کیفیت میں تھی اور کوئی یہ نام سننے کو بھی تیار نہ تھا۔ یہ شکست نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کیلئے پژمردگی اور خجالت کا باعث تھی بلکہ اُمتِ مسلمہ کے بیشتر افراد اسے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ قرار دیتے تھے۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل حکمران تھے۔ بنگلہ دیش سے حاجیوں کا جہاز نوزائیدہ ملک کا پرچم لہراتا ہوا جب جدہ کے قریب پہنچا تو سعودی حکومت نے اس کے داخلے پر پابندی لگا دی اور اس شرط پر اندر آنے دیا کہ پاکستانی پرچم لہرا کر بندر گاہ پر آئیں۔ اس جذباتی فضا میں پاکستان کی میانوالی جیل میں ایک اہم قیدی شیخ مجیب الرحمن قید تھا۔ اسے 25 مارچ 1971ء کو اس کی رہائش گاہ دھان منڈی سے گرفتار کر کے پہلے فیصل آباد اور پھر میانوالی جیل میں رکھا گیا۔ وہ نو ماہ تک زیر حراست رہا اور پھر اسے 8 جنوری 1972ء کو اچانک لندن پہنچا دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کے ساتھ ہی لاتعداد کہانیاں پورے ملک میں گردش کرنے لگیں۔ ان میں سے سب سے اہم یہ تھی کہ شیخ مجیب نے جانے سے پہلے بھٹو کو کہا تھا کہ میں منتخب وزیر اعظم ہوں، میں ٹی وی پر آ کر تقریر کرتا ہوں کہ انڈیا فوراً اپنی افواج مشرقی پاکستان سے نکالے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے جیالے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے پھرتے تھے مگر پچاس سال بعد جیسے ہی امریکی دستاویزات کھولی جاتی ہیں، شیخ مجیب الرحمن کی سکیورٹی پر تعینات راجہ انار خان نے 2015ء میں اسی طرح پوری کہانی کو طشت از بام کر دیا۔ راجہ انار خان سپیشل برانچ کا ایک انسپکٹر تھا جسے ایک قیدی کی حیثیت سے شیخ مجیب کے ساتھ جیل میں رکھا گیا تھا۔ اسکے بقول ان نو مہینوں میں شیخ مجیب کو اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بالکل محروم رکھا گیا اور اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کا مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ راجہ انار خان کے مطابق 20 دسمبر 1971ء کو صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھٹو شیخ مجیب سے ملنے میانوالی جیل آیا۔ مجیب حیران ہو کر بولا، آپ یہاں کیسے؟ بھٹو نے کہا کہ میں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہوں۔ مجیب نے حیرت سے پوچھا، یہ کیسے، بھٹو نے جواب دیا، مشرقی پاکستان پر قبضہ ہو چکا ہے، بھارت کے سامنے پاکستانیوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور جنرل یحییٰ نے استعفٰے دے دیا ہے۔ شیخ مجیب یہ سنتے ہی غصے میں آگ بگولا ہو کر کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور تحقیر آمیز لہجے میں بولا، ’’یہ کیسے ممکن ہے، تم کیسے صدر بن سکتے ہو، تم تو ایک شکست خوردہ شخص ہو۔ تمہاری پارٹی تو الیکشنوں میں ایک اقلیتی پارٹی تھی، میں اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہوں۔ یہ میرا حق ہے کہ میں صدر کی کرسی پر بیٹھوں۔ مجھے فوراً ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر لے چلو اور میں اس سب کے خلاف بات کروں گا اور مشرقی پاکستان کو واپس ساتھ لے آئوں گا۔ میں ہی ان تمام چیزوں کو ختم کروا سکتا ہوں‘‘۔ بھٹو نے اسے ہاتھ کے اشارے سے کہا، اطمینان کرو، اب یہ ایک حقیقت ہے، بیٹھ جائو۔ شیخ مجیب بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ یہ سب عوامی لیگ کے تاج الدین احمد کی کارستانی ہے جسے جلاوطن حکومت کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا، یقیناً اس نے بھارت کے ساتھ سازباز کی ہو گی۔ یہ تمام گفتگو راجہ انار خان پردے کے پیچھے کھڑا سن رہا تھا، جو اس نے پچاس سال بعد بتائی۔ اس نے بتایا کہ بھٹو کے جانے کے بعد مجیب نے خود کو کمرے میں بند کر لیا اور وہ دروازہ پیٹنے پر بھی دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ کافی دیر بعد وہ مصلے پر سجدہ ریز ہوا اور روتے ہوئے زور زور سے پکارا۔ یااللہ یہ کیسے ہو گیا، میں تو یہ نہیں چاہتا تھا۔ اسی کہانی کو سٹینلے والپورٹ (Stanly Walpert) نے اپنی کتاب ’’زلفی بھٹو آف پاکستان‘‘ میں بھی لکھا ہے کہ مجیب نے بھٹو کو پیشکش کی تھی کہ ’’ہم دونوں ملکوں کی کنفیڈریشن بنا لیتے ہیں۔ سب مجھ پر چھوڑ دو، مجھ پر بھروسہ کرو‘‘، یہی وجہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کے سامنے یحییٰ خان نے حلف پر جو بیان جمع کروایا ہے اس میں اس نے تحریر کیا :۔ "It was Bhutto, not Mujib, who broke Pakistan" (یہ بھٹو تھا، جس نے پاکستان توڑا، مجیب نہیں)۔ مجیب چاہتا تھا کہ اسے ریڈ کراس کے حوالے کیا جائے یا ڈھاکہ بھیجا جائے لیکن بھٹو نے اسے براہِ راست بنگلہ دیش بھیجنے کی بجائے لندن بھیجا۔ لندن جو تخلیقِ پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے فیصلوں پر مسلسل اثر انداز ہوتا چلا آ رہا ہے۔ عالمی طاقت امریکہ بھی اس خطے میں کام کرنے کیلئے برطانوی خفیہ ایجنسیوں سے براہِ راست رہنمائی لیتی ہے۔ شیخ مجیب کے لندن ایئر پورٹ پر اترنے کے فوراً بعد لندن کا کھیل شروع ہوا۔ جہاز کے اترنے سے پہلے ہی اندرا گاندھی اور برطانوی وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کے درمیان فون پر گفتگو ہوئی، جس میں اندرا گاندھی نے کہا کہ وہ خصوصی طیارہ بھجوا رہی ہے تاکہ مجیب کو براستہ نیو دلّی، ڈھاکہ پہنچایا جا سکے۔ یہاں سے لندن پلان کا آغاز ہوا۔ تین لوگوں کو اس طیارے میں بھیجا گیا، بھارتی ’’رائ‘‘ کا سربراہ رام ناتھ کائو، اندرا گاندھی کا سپیشل ایڈوائزر پی این لکیسر اور سیکرٹری خارجہ ٹی این کول۔ باقی دو لوگ تو دیگر سفارتی ضروریات کیلئے گئے تھے جبکہ اصل کردار ’’رائ‘‘ کے چیف رام ناتھ کائو کا تھا۔ اترتے ہی مجیب الرحمن سے میٹنگ شروع ہوئی جسے برطانوی حکومت نے خصوصی طور پر منعقد کروایا تھا اور جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ مجیب پاکستان خصوصاً بھٹو سے مایوس ہو کر آیا تھا اور یہاں آنے پر اسکے پاس گزشتہ نو ماہ میں بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کی کہانیاں بھی پہنچ چکی تھیں اس لئے وہ بدلا ہوا نظر آ رہا تھا۔ بقول تفضل مانک میاں ایڈیٹر ’’اتفاق‘‘، کہ مجیب کو پاکستانی افواج کے مظالم کے تمام شواہد برطانوی خفیہ ایجنسی M16 نے اترتے ہی فراہم کر دیئے تھے۔ کائو کے مطابق اس کی حیرانی کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب شیخ مجیب الرحمن نے اسے ایک لفافہ تھمایا جس میں ایک خط تھا جو اس نے 23 دسمبر 1962ء کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو لکھا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں اس کی مدد کرے۔ کائو نے سوچا کہ جیل سے آنے والے مجیب کے پاس یہ لفافہ کہاں سے آ گیا، پھر مجیب سے سوال کیا کہ اگر بھارت اس کی مدد نہ کرتا تو کیا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ تھا۔ مجیب نے کہا بالکل نہیں۔ کائو لکھتا ہے کہ جب میں نے ’’رائ‘‘ کی فائلیں نکالیں تو پتہ چلا کہ شیخ مجیب کو اس شرط پر مدد کیلئے کہا گیا تھاکہ اس کی تحریک بنگالی قوم پرستی، سیکولر ازم، لبرل ازم اور گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی ہو۔ تیرہ گھنٹے لمبی فلائٹ میں ایک لمحے کیلئے مجیب نے کائو کے کان میں سرگوشی کی کہ تم میری اندرا گاندھی سے ملاقات کرائو، میں اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ 31 مارچ تک بھارتی افواج بنگلہ دیش سے نکال لے۔ کائو کہتا ہے کہ اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ بات مجیب کو ایڈورڈ ہیتھ نے ہی سکھائی ہو گی کیونکہ جب ہیتھ مجیب سے ملا تو اس نے کہا تھا کہ ہم تمہاری ہر طرح کی مدد کریں گے، لیکن ہم تمہیں تسلیم اسی وقت کریں گے جب بھارتی افواج وہاں سے نکلیں گی۔ یہ تھا پہلا اہم لندن پلان جو پاکستان ہی نہیں بھارت کے بھی خلاف استعمال ہوا۔ (جاری)