کسی بھی انسان کے لئے سب سے ضروری چیز صحت ہے۔ ایک انسان مالی طور پر کتنا ہی خوشحال کیوں نہ ہو .اگر وہ صحت مند نہیں ہے تو سب مال ودولت اسکے لئے بے کار ہے۔ فرض کریں ایک انسان مٹھائی کی سب سے اچھی دکان پر بیٹھا ہے اور وہ شوگر کا مریض ہے تو مٹھائی کی یہ دکان اس کے لئے بے کار ہے۔ اگر ایک شخص بھوکا ہے تو وہ اس وقت پریشان ہوگا جب وہ بھوکا ہوگا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ بے فکر ہو جاتا ہے مگر ایک مریض ہر پل بے چین رہتا ہے جب تک وہ مکمل طور پر صحت مند نہیں ہو جاتا۔قوم افراد سے بنتی ہے اگرافراد صحت مند ہونگے تو قوم ترقی کرے گی اور اسکا نام تعلیم ، کھیل اور دوسرے شعبوں میں ہوگا۔ ایک بیمار معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ بیماری کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے۔ جسمانی یا روحانی۔پاکستان اس وقت صحت کی سہولتوں کے لحاظ سے اس وقت بہت پیچھے ہے۔کچھ دن پہلے ایک رپورٹ آئی تھی جس کے مطابق پاکستان اس وقت شوگر کے مرض میں پہلے نمبر پر ہے۔ 30فی صد پاکستانی کسی نہ کسی قسم کی شوگر میں مبتلا ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں یہ شرح بہت کم ہے۔2021کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف ایک اعشاریہ چار فی صد صحت پر خرچ کر رہا ہے۔ ایک اور بہت خوفناک بات یہ ہے اس وقت پاکستان میں نو میں سے ایک خاتون چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہے جو بہت بری صورتحال ہے۔موٹا پا اس وقت پاکستان میں عام ہے۔ اس وقت ہر چوتھا شخص موٹا ہے یا اسکا وزن زیادہ ہے۔شہروں میںیہ وبا بہت عام ہے۔ موٹاپے کے ساتھ بلڈ پریشر اور شوگر دو فری میں ملنے والی پراڈکٹس ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بلڈ پریشر کا مرض بھی بہت عام ہے۔ 50سال سے اوپر بہت کم ایسے افراد ہیں جنکا بلڈ پریشر نارمل ہے۔ اس وقت پاکستان میں بہت سے افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ خاص طور پر بچے اور خواتین میں خوراک کی کمی عام ہے۔ اس وقت بچوں میں نشوونما کا رک جانا اور عورتوں میں خون کی کمی (انیمیا) کی بیماری عام ہے۔ پاکستان میں خوراک کے سلسلہ میں اس وقت کافی مسائل ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بہت کم افراد کی خالص دودھ تک رسائی ہے۔ ملاوٹ عام ہے، دودھ میں پہلے وقتوں میں صرف پانی ملایا جاتا تھا اب بہت سارے کیمیکل دودھ میں شامل کئے جاتے ہیں تاکہ اس کو زیادہ دیر رکھا جا سکے۔ خاص طور پر یوریا کھاد کا استعمال عام ہے۔ اس وقت پاکستان میں نصف سے زیادہ دودھ جو استعمال ہو رہا ہے وہ مصنوعی دودھ ہے۔ جو مختلف کیمیکل ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔پاکستان کے لوگ کھانے کا تیل استعمال کرنے میں سر فہرست ہیں۔ دوسرے ملکوں کی نسبت یہاں کھانے کا تیل پانچ گنا سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ گوشت کے استعمال میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کے لوگ پروٹین کے حصول کیلئے صرف دال استعمال کر سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ بیف اور مٹن صرف عید قربان پر سال میں ایک بار استعمال کرتے ہیں۔پھل کھانے کا رحجان ہماری قوم میں بہت کم ہے۔ خاص طور پر بچے اور خواتین فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ بہت سارے لوگ پھل مہنگا ہونے کی بنا پر استعمال نہیں کر سک اور بہت سارے لوگ وسائل ہونے کے باوجود پھل نہیں کھاتے۔ اس وقت ایک بہت خوفناک رحجان یہ ہے پاکستانی بچے پھل اور سبزی بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ پچھلے بیس تیس سال میں چاول کا استعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ پہلے لوگ چاول بچت کے طور پر کھاتے تھے اب انکی عادت بن گئی ہے چھوٹے بچے سات دن چاول کی فرمائش کرتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں صحت کا نظام دو حصوں میں ہے۔ ایک حکومت کے کنٹرول میں ہے اور دوسرا نجی شعبے کے کنٹرول میں۔پاکستان میں اشرافیہ اپنا علاج زیادہ تر دوسرے ممالک میں کرواتی ہے۔ کچھ افراد پرائیویٹ شعبہ میں جاتے ہیں۔ سرکاری ہاسپٹل صرف غریب لوگوں کی پناہ گاہ ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا سب سے بڑا مسئلہ رش کا ہے۔ ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض ہوتے ہیں۔ چلڈرن ہسپتال لاہور میں ایک وقت میں یہ صورتحال تھی کہ ایک ایک بیڈ پر چار چار بچے ہوتے تھے۔ تازہ صورتحال کیا ہے خبر نہیں چھ تک تعداد پہنچی ہے یا نہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال عام شہری کی پہنچ سے باہر ہیں۔ یہ ہسپتال مہنگے ہوٹل کی مانند ہیں۔جہاں ہر ایک سروس کے الگ چارجز ہوتے ہیں۔پاکستان وہ ملک ہے جہاں کے ڈاکٹر ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ امریکہ میں دل کے اچھے ڈاکٹر پاکستانی ہیں۔ برطانیہ ، کینڈا، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈسب ممالک میں پاکستانی ڈاکٹر کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب المیہ یہ ہے کہ اچھے ڈاکٹر پاکستان سے جاچکے ہیں۔ جو یہاں موجود ہیں ان سے ان کی استعداد کے مطابق کام نہیں لیا جا رہا۔ ہم بہت اچھے ڈاکٹر انتظامی امور میں ڈال کر ضائع کر دیتے ہیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب بھی ہمارے پبلک سیکٹر میں ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جن کو مسیحا کہا جاسکتا ہے۔جس کا ذاتی تجربہ مجھے اپنی ایک عزیزہ کی بیماری کے دوران ہوا۔ جناح ہسپتال کے ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر ارسلان جس طرح اپنے مریضوں کا خیال کرتے ہیں۔ وہ بڑا ہی قابل ستائش عمل ہے۔ ایک ایک مریض کا حال چال پوچھنا اور اسکو تسلی دینا۔ اس سے مریض کی آدھی بیماری ختم ہو جاتی ہے۔ ہم اگر دنیا میں یترقی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہر شعبے میں میرٹ کا خیال رکھنا ہوگا۔ میرٹ پر تعیناتی صحت کے شعبہ میں آدھے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ اگر ہم قابل افراد کے ٹیلینٹ کو نظر انداز کرتے رہیں گے تو پھر ملک میں جنگل جا قانون ہوگا۔ اس وقت میں ملک میں ڈاکٹر کم اور بیماری زیادہ ہے دعا کریں کہ وہ دن آئے جب ڈاکٹر زیادہ ہوں اور بیماری کم ہو۔یہاں پر ڈاکڑ کو سہولیات دی جائیں تاکہ دوسرے ملکوں میں ڈاکٹر کی ہجرت کو کم کیا جائے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے صحت کے شعبے کے دوسرے اہم ستون نرسز پر بات نہیں ہو سکی۔ انکی خدمات کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔