پاکستانی صحافت: ذمہ داریاں اور چیلیجز کے عنوان سے برمنگھم میں پاکستان پریس کلب کے لٹریری اینڈ کلچرل فورم کے زیر اہتمام ہونے والے سیمیینار کے حوالے سے جناب ظہور احمد نیازی کے خطاب پر گفتگو کروں گا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہماری دعوت قبول کی بلکہ سب سے پہلے پاکستان پریس کلب اور خصوصاً ساجد یوسف کو اس سیمینار کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہرزبان اپنی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب تک برطانیہ اور یورپ میں اردو کا چلن باقی ہے ، پاکستانی تہذیب یہاں باقی رہے گی، اگرچہ پاکستانی تہذیب کے بارے میں کچھ طبقات کے خیالات مختلف ہیں۔ یوں تو دنیا بھر میں اخبارات کی اشاعت ٹی وی، انٹرنیٹ پر آن لائن ایڈیشنز اور سوشل میڈیا کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے لیکن پاکستانی اخبارات پر اس کا زیادہ اثر ہوا ہے۔ جب مفت میں ٹی وی چینل دیکھنے کو مل جائیں تو کون ایک پونڈ کا اخبار خریدے گا۔ بیشتر افراد ڈیجیٹل ایڈیشنز پڑھ لیتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی صحافت کے حوالے سے اپنی گفتگو برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبارات تک محدود کرتے ہوئے کہا کہ پہلے برطانیہ میں آباد ہونے والے پاکستانیوں کے بارے میں جان لینا ضروری ہے۔ 50 کی دہائی کے آغاز سے ہی پاکستانیوں کی برطانیہ آمد شروع ہو گئی تھی۔منگلا ڈیم کی وجہ سے جب پرانا میرپور زیر آب آگیا تومتاثرین کی بڑی تعداد نے برطانیہ کا رخ کیا۔ 1965ء تک ایک لاکھ کشمیری برطانیہ آچکے تھے۔ 70 کی دہائی میں یہ تعداد دو لاکھ سے بھی بڑھ گئی۔2021 ء کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں پاکستانیوں کی تعداد 51لاکھ سے زائد ہے جبکہ پاکستانی حلقے یہ تعداد 20 لاکھ بتاتے ہیں۔ برطانیہ میں سب سے پہلے اردو ہفت روزہ ’مشرق‘ ایک کشمیری دانشور اور صحافی سلطان محمود ہاشمی نے 1960 میں اسی شہر برمنگھم سے شروع کیا۔ 1927 تک وہ اس کی ادارت سنبھالے رہے۔ انہوں نے ’کشمیر اداس ہے‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بعد عبدالرشید (اے آر) بنگش پہلے منیجنگ ایڈیٹر اور پھر ایڈیٹر بنے۔ 2001 تک اس کی اشاعت جاری رہی۔تعداد اشاعت 21 ہزار ہو گئی۔ بشیر ریاض، جو بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ترجمان بنے اور علی کیانی، جو وفات کے وقت یہاں لندن اخبار میں رپورٹر تھے۔ 9 سال بعد برمنگھم سے ہی عبد الوحید قریشی نے’’ایشیا‘‘ کے نام سے ایک اور ہفت روزہ شروع کیا۔ برطانیہ میں اردو صحافت کے حوالے سے جانے پہچانے نام حبیب الرحمٰن اس کے پہلے ایڈیٹر اور بشیر ریاض نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مشرق نے ایشیا خرید لیا لیکن حبیب الرحمٰن اور بشیر ریاض مزید ایک سال تک ادارے سے وابستہ رہے۔بعد ازاں بشیر ریاض ایڈیٹر بنے۔اپنی ادارت کے دوران انہوں نے پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار بھٹو کے تعرے اسلامی سوشلزم کا خوب پرچار کیا۔ اشاعت 5 ہزار کے لگ بھگ رہی۔ 1971 میں بھارت سے جنگ چھڑنے سے قبل ہی اے آر بنگش نے اسے روزنامہ بنا کر علی کیانی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ پاکستانی کمیونٹی کی ایک مقبول شخصیت عبد الرزاق نے1970 میں ’اخبارِوطن‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ شروع کیا جو 1990تک مختلف شکلوں، کبھی ہفت روزہ، کبھی روزنامہ اور کبھی ماہنامہ، کے طور پر شائع ہوتا رہا۔1970 میں ہی حبیب الرحمٰن نے ’آزاد‘ کے نام سے برمنگھم سے ہی رنگین تصاویر کے ساتھ ہفت روزہ کا آغاز کیا۔ اس کی اشاعت بھی 5 ہزار رہی۔اوصاف اور کشمیر لنک کے نام سے دواخبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشنز برطانیہ میں دستیاب رہے۔ پریس کلب کے بانی صدر مبین چوہدری کے جوانی میں ہی انتقال کے بعد کشمیر لنک کا برطانوی ایڈیشن بند ہو گیاہے۔ پاکستانی اخبارات و جرائد نے سیاسی، معاشرتی،تعلیمی، دینی اور تہذیبی امور میں کمیونٹی کی رہنمائی کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیا۔ البتہ اردو سے نابلد نوجوان طبقے کو پاکستان اور اپنی تہذیب و ثقافت سے وابستہ کرنے کی خاطر خواہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔ جب برمنگھم میں مرکزی مسجد کی تعمیر کیلئے کوششوں کا آغاز ہوا تو ہفت روزہ مشرق نے ایک پاکستانی بنک میں تعمیر مسجد کے نام سے ایک اکائونٹ کھولا اور 50ہزار پونڈ جمع کرکے مسجد کے منتظمین کے حوالے کر دئے۔ پاکستانی اخبارات و جرائد نے لیبر پارٹی کی بھارت نواز پالیسی کو بریک لگانے کیلئے لیبر حکومت پر دبائو رکھا۔ عام انتخابات سے کچھ عرصے قبل فارن سکریٹری (وزیر خارجہ) نے بھارتی کمیونٹی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا تو جنگ نے اس کی شہ سرخی لگا کر دوسرے دن جیک سٹرا کا انٹر ویو کیا۔ ظہور نیازی نے ان سے کہا کہ اگر لیبر پارٹی کی یہ پالیسی ہے تو ہم لیبر پارٹی کو ووٹ نہ دینے کی مہم چلائے گا۔ جیک سٹرا کا کہنا تھا کہ ان کا موقف اخبارات میں درست شائع نہیں ہوا۔ ان سے تردید کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ چند روز بعد ہونی والی سالانہ لیبر کانفرنس میں یہ قرارداد منظور کرائیں گے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ حسب وعدہ انہوں نے کانفرنس میں قرارداد منظور کرائی۔ اس کانفرنس میں اْس وقت کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے شرکت کی۔