ہر طرف مایوسی ہے، جس سے ملو، اُداس، پژمردہ۔ کسی کالج یا یونیورسٹی میں نوجوانوں کی کسی تقریب میں چلے جائو، وہ نوجوان کہ جن کے ابھی کھیلنے کُودنے کے دن ہیں، آپ سے سوال کرتے ہیں، کہ اس ملک میں آج تک اس سے بھی بُرا وقت کبھی آیا ہے۔ میں جواب دیتا ہوں، بُرا تو ہے کہ لیکن اس سے اچھا وقت بھی کبھی نہیں آیا۔ وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے پوچھتے ہیں، یہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں۔ میرا جواب ہوتا ہے کہ ایسا پاکستان میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پڑھے لکھے مڈل کلاس لوگوں سے لے کر نیم خواندہ اور ناخواندہ غریب افراد تک ہر کسی کو اس بات کا بخوبی پتہ چل گیا ہے، کہ ان کے ساتھ اتنے عرصے سے جو کھیل کھیلا جا رہا تھا، وہ کون کھیل رہا ہے۔ ان میں سے بے شمار ایسے ہیں کہ جو آپ کو یہ تک بتا دیں گے ان مقامی کھیل کھیلنے والوں کی ڈوریاں کون سے بیرونی ہاتھوں کے کنٹرول میں ہیں۔ دس اپریل 2022ء کے بعد سے اب تک گزرنے والے آٹھ ماہ اس قوم کی ’’بلوغت‘‘ کا عرصہ ہے اور اس کا گزرتا ہر لمحہ اس کی اجتماعی سوچ کی پختگی اور بالغ نظری میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ آپ تمام ٹیلی وژن شوز دیکھنا بند کر دیں اور اخبارات میں خبریں اور کالم نگاروں کی ذاتی پسند ناپسند والی تحریریں پڑھنا چھوڑ کر، پاکستان کے کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے قصبے کے کسی بازار میں نکل جائیں۔ یہ پسنی کا مچھلی بازار بھی ہو سکتا ہے، مٹھی کے قلعے کا پڑوس بھی، ماموں کانجن کی مارکیٹ یا تیرہ کی وادی بھی۔ آپ وہاں لوگوں سے پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں سوال پوچھیں تو وہ آپ ایسے جواب دیں گے جو تلخ حقیقت ہوں گے اور وہ جو جس سچ کو بیان کرتے ہیں، اسے بیان کرنے کی جرأت اس وقت پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کسی کے پاس بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ آوازیں ہیں لیکن ان کا ٹھکانہ بھی اس ملک سے باہر ہے۔ یوں ملک سے دُور ہونے کی وجہ سے ان طاقتوں کی دسترس سے بہت دُور ہیں جو انہیں اس گستاخی کی بروقت سزا دے سکتی ہیں، انہیں لاپتہ کر سکتی ہیں، انہیں سرِبازار رُسوا کر سکتی ہیں، انہیں بے لباسی کی اذیت سے دوچار کر سکتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کے دُور دراز علاقوں میں کہ جہاں ان کا کوئی جاننے والا نہ ہو، وہاں ان کے خلاف کسی ’’محبِ وطن‘‘ شہری کے ذریعے مقدمہ درج کروا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس قدر غصہ اور غیظ و غضب اس وقت پوری قوم میں بھرا ہوا ہے اس کا ایک فیصد بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نظر نہیں آتا۔ یہ غصہ اور اضطراب بے معنی اور بے وجہ نہیں ہے ہر شخص اپنی نفرت کی وجہ جانتا بھی ہے اور اسے اپنے اصل مجرموں کی بھی براہِ راست پہچان ہو چکی ہے۔ مثلاً آپ پاکستان کے کسی بھی قریے میں کھڑے ہو کر راہ چلتے افراد سے صرف ایک سوال کریں کہ موجودہ حکومت جو تیرہ پارٹیوں کا مجموعہ ہے، جن میں کسی ایک کا قبلہ کسی دوسرے کے ساتھ نہیں ملتا ہے، کیا یہ خودبخود عمران خان کے خلاف اکٹھا ہو گئی ہیں؟ تو اس کے جواب میں ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق اس کا براہِ راست جواب آپ کو دے گا۔ کوئی مسکرا کر کہے گا، آپ کو نہیں پتہ کہ وہ کون ہے جس نے انہیں ایک میز پر بٹھایا ہے، تو کوئی غصہ میں لال پیلا ہو کر جواب دے گا، ہمیں سب پتہ ہے کون یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ یہ سب تو کٹھ پُتلیاں ہیں، ان کے پیچھے ہاتھ جس کا ہے اسے اب ہم بخوبی جان گئے ہیں۔ یہ جانکاری کا لمحہ ایک دن میں نہیں آیا۔ یہ عوامی شعور ان پچھتر سال کی تلخیوں، محرومیوں اور بے بضاعتیوں کا نتیجہ ہے، جو اس قوم نے مسلسل برداشت کیں ہیں۔ انہیں سب معلوم ہو چکا ہے کہ یہ ’’اصل‘‘ حکمران ان کے آباء و اجداد پر بھی مسلّط کئے گئے تھے۔ اس نسل نے 1857ء کی جنگِ آزادی تو نہیں دیکھی، لیکن وہ اب ان تمام کرداروں سے واقف ضرور ہو گئے ہیں جنہوں نے تاجِ برطانیہ کا ساتھ دیا تھا اور وہ برطانوی فوج کے لئے انسانوں کی صورت ایندھن فراہم کیا کرتے تھے۔ جب کسی بھی قوم کی آنکھیں کھلتی ہیں تو ان کی صدیوں پرانی تاریخی یادداشت ایک روشن دلیل کی صورت زندہ ہو جاتی ہے۔ پاکستانی قوم کی یادداشت کو سب سے پہلے تاجِ برطانیہ کے وفاداروں نے زنگ آلود کیا۔ کوئی آنریری کرنل بن گیا تو کوئی آنریری مجسٹریٹ اور سب کو ’’وفاداری‘‘ کے صلے میں زمینیں الاٹ ہوئیں اور ان کی سیرابی کے لئے نہریں نکالی گئیں اور یوں نوے سال کے عرصے میں کم از کم تین نسلیں غلامی کی اندھیر نگری میں اپنے درمیان صرف تین قسم کے آقائوں کو پہنچاتی رہیں۔ ایک برطانوی فوج جس میں اب اکثریت ان کے اپنے ہم نسل لوگوں کی تھی، برطانوی بیوروکریسی کہ اب اس میں بھی چند گورے نظر آتے تھے، اور ان دونوں کی تیارکردہ سیاسی قیادت جو شلوار قمیض اور پگڑی کے ساتھ ٹائی بھی لگاتی تھی۔ یہ ناریل تھے جو باہر سے گندمی اور اندر سے مکمل گورے تھے۔ عام آدمی اس سیاسی قیادت کو پہچانتا تھا، لیکن ان کا رُعب و دبدبہ برطانوی فوج اور برطانوی بیوروکریسی نے ایسا قائم کر رکھا تھا کہ وہ ان سے خائف رہتا۔ نوے سال کے بعد اس قوم میں بلوغت کا ایک لمحہ آیا۔ انہوں نے پہچان لیا کہ یہ تمام سیاسی رہنماء دراصل باوردی، نیم وردی اور سول کپڑوں میں ملبوس برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پُتلیاں ہیں۔ یہ وہ عوامی بلوغت کا طوفان تھا جو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے گرد جمع ہو گیا تھا۔ کسی نون، ٹوانے، دولتانے، ارباب یا کھوڑو کی ہمت نہیں تھی کہ وہ قائد اعظمؒ کی کشتی کو چھوڑ کر کسی اور پر سوار ہوتا اور لوگ اس سے محبت کرتے، اسے منتخب کرتے۔ ساری کٹھ پُتلیاں اپنے برطانوی آقائوں کے رُخصت کا مرحلہ دیکھتے ہی قائد اعظمؒ کے عوامی سیلاب کے بہائو پر چل پڑیں۔ لیکن ان کو کنٹرول کرنے والے باوردی، نیم وردی اور سول کپڑوں والے ابھی تک ویسے ہی تھے۔ قائد اعظمؒ کے بعد انہوں نے پچھتر سال عوامی سٹیج پر اپنا پرانے والا رقص ہی برپا کئے رکھا۔ یہ سب تماشہ کرنے والے پچھتر سال مختلف ملبوس دھارے تماشے کرتے رہے ، ’’کبھی یہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن‘‘ کسی کو وطنیت کے بخار میں مبتلا کیا تو کسی کو مذہبی سرشاری میں عقل و ہوش سے بیگانہ کر دیا۔ وطن پرست، قوم پرست، مذہب کی بالادستی والے تمام کے تمام ان کی انگلیوں کے اشاروں پر چلتے تھے۔ لیکن تماشہ کرنے والے انہیں باہم دست و گریبان کئے رکھتے اور عوام انہیں حقیقی کردار سمجھ کر ان کے پیچھے چل پڑتی۔ پچھتر سال تک وہ ان کے پیچھے تقسیم ہوتی رہی اور یہ کردار اپنے ان عشاق کو اسٹیبلشمنٹ کی دہلیز پر جا کر بیچ دیا کرتے۔ یہ تمام کٹھ پُتلی کردار کبھی اکٹھا نہیں ہوتے تھے، کیونکہ پھر تو لوگ پہچان لیتے کہ ان سب کا ہدایت کار ایک ہی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ اتنے کم پڑ گئے کہ باوردی، نیم وردی اور سول کپڑے والوں نے ان سب کو ایک ساتھ اکٹھا کر کے سٹیج کو سجا دیا۔ لیکن جیسے ہی سٹیج سے پردہ اُٹھااور بائیس کروڑ عوام نے اس نئے تھیٹر میں باہم دست و گریباں کرداروں کو ایک ساتھ یکجا دیکھا تو ان پر حقیقت کھل گئی۔ یہ اس قوم کی بلوغت کا مرحلہ تھا۔ یہ دس اپریل تھا۔ یہ مرحلہ 1947ء سے زیادہ جاندار ہے، اب لوگ تماشہ دکھانے والوں کو بھی پہچان گئے ہیں۔ 1947ء صرف بلوغت کا لمحہ تھا، لیکن دس اپریل 2022ء بلوغت کے ساتھ اصل غاصبوں کے ادراک کا بھی لمحہ ہے۔