پاکستان کے لوگ کبھی بھی 2022کو نہیں بھول سکتے ۔اس سال پاکستان نے اپنی تاریخ کا بدترین سیلاب دیکھا۔14جون 2022سے اکتوبر 2022تک سیلاب سے 1739افراد کی اموات ہوئی۔14اعشاریہ 9ارب ڈالر کا املاک کا نقصان ہوا اور جو معاشی نقصان ہوا اس کا تخمینہ 15اعشاریہ ارب ڈالر کا لگایا گیا۔پاکستان کی اکانومی کا جو نقصان ہوا وہ آنے والے دس سال میں پورا نہیں ہو سکتا۔ ملک کا آدھا سے زائد انفرا سٹرکچر مکمل تباہ ہو گیا۔ سڑکیں ٹوٹ گئیں۔ عمارات ختم ہو گئیں، بہت سے سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارات ناکارہ ہو گئیں۔یہ سیلاب دنیا کے خطرناک سیلابوں میں اے ایک تھا۔25اگست کو ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سال ابھی مون سون کا باقاعدہ آغاز ہونا ہے کہ ملک میں سیلاب کے الارم بجنے لگ گئے ہیں۔ اس سال جون میں تاریخ کی سب سے زائد بارشیں ہوئی ہیں اور انکے ثمرات ابھی نظر آنے لگ گئے ہیں۔دریائے ستلج میں درمیانہ درجے کا سیلاب ہے۔ بھارت نے فیروز والہ ہیڈ ورکس سے پانی کااخراج شروع کردیا ہے اور گزشتہ دنوں گنڈا سنگھ والہ ہیڈ ورکس سے پاکستان میں داخل ہونے والے پانی کی مقدار 169000 کیوسک تھی جو کہ درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ بھارت میں دریائے ستلج اور راوی کے ماخذ علاقوں میں اس سال جون میں بہت بارش ہوئی ہے جس کی بنا پر راوی اور ستلج میں سیلاب آسکتا ہے۔ 12جولائی 2023سے بارشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو رہا ہے جو17جولائی تک جاری رہے گا۔ 12جولائی کو اپر پنجاب اور 13جولائی کو مرکزی پنجاب اور 14جون کو جنوبی پنجاب میں بارشوں کا امکان ہے۔ یہ بارشیں سارے ملک میںمتوقع ہیں۔اب جو بارش ہوگی تو ملک میں سیلاب کے خدشات بڑھ گئے۔ اب بھی ضلع چنیوٹ، ٹوبہ، جھنگ اور قصور میں ڈپٹی کمشنر نے اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے ہم یہ اقدامات اس وقت ہی کیوں کرتے ہیں جب خطرہ ہمارے گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ پاکستان نے سیلاب کے سلسلہ میں ہمیشہ دفاعی حکمت عملی رکھی ہے۔ ہم صرف سیلاب آنے کی صورت میں امدادی کاروائی شروع کرتے ہیں۔ فوج کو طلب کرلیا جاتا ہے اور بعد میں دوسرے ممالک سے امداد طلب کی جاتی ہے اور اپنا قومی وقار مزید مجروح کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں سب سے بڑا اقدام جو کیا گیا ہے وہ ہم نے چند بڑے شہروں کو سیلاب سے بچانے کے لیے بند بنائے ہیں اس سے بڑا شہر بچ جاتا ہے اور دوسری طرف سینکڑوں دیہات پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم ے ہمیشہ ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل کیاہے۔ہماری لیڈر شپ آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ سیلاب کے مسئلہ کا کوئی پکا حل نکالا جائے۔ سیلاب دنیا کے بہت سے ممالک میں آتے تھے اور آتے ہیں مگر انہوں نے اپنے ان مسائل کا دیرپا حل تلاش کیا ہے۔ بنگلہ دیش جہاں 1971سے پہلے پاکستان سے زیادہ سیلاب آتے تھے اب وہاں سیلاب سے وہ تباہ کاری نہیں ہوتی جو پہلے ہوتی تھی۔ ہمارے پڑوسی ملک چین کی مثال سامنے ہے جہاں دنیا کا سب سے خوفناک دریا بہتا ہے جس کو زرد دریا بھی کہتے ہیں۔جس کو چینی زبان میں ینگ زی ریور بھی کہا جاتا ہے اس دریا کو چین میں پہلے خدائی آفت کا نام دیا گیا تھا۔ اس دریا میں بہت بڑے بڑے سیلاب آتے تھے۔ لاکھوں لوگ موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چینی قیادت نے اس مسئلہ کا حل سوچنا شروع کیا۔چین کی نیشنلسٹ پارٹی نے اس سب سے بڑے دریا پر بند بنانے کا سوچا۔ 1953میں عظیم چینی راہنما ماو نے اس کی فیزیبیلیٹی پورٹ تیا ر کرنے کا حکم دیا۔1955میں اس منصوبہ کی مکمل پلاننگ شروع ہو گئی۔ منصوبہ یہ تھا۔ اس دریا پر ایک بہت بڑا ڈیم بنایا جائے جس کی بنا پر دریا کی طغیانی کو کم کیا جا سکے۔شروع میں اس منصوبے کی کافی مخالفت ہوئی۔ مخالف دلائل یہ تھے کہ اس ڈیم سے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہونگے۔ بہت سا تاریخی ورثہ ختم ہو جائے گا۔کافی عرصہ اس پرجیکٹ پر کام شروع نہ ہوسکا۔کوئی چالیس سال بعد چینی وزیر اعظم لی پنگ جو خود ایک انجینئرتھے چینی کی قیادت کو اس پراجیکٹ پر آمادہ کر لیا۔ اس وقت بھی مخالفت کا یہ عالم تھا کوئی ایک تہائی قیادت نے اس پراجیکٹ کی مخالفت کی جب 1994میں اس کا افتتاح ہو تو چینی صد ر جیانگ زیمن اس میں شریک نہ تھے۔ ڈیم بننا شروع ہو گیا۔ ورلڈ بینک سے اس ڈیم کو بنانے کے لئے فنڈ دینے سے انکار کر دیا۔ چین نے اپنے بل بوتے پر ڈیم کی تعمیر شروع کر دی۔ 1997میں دریا کا رخ تبدیل کر دیا گیا۔ 2003میں ڈیم پانی سے بھر نا شروع کر دیا گیا۔ 2006میں ڈیم کی دیوار مکمل ہو گئی اور 2015تک ڈیم تیار ہوگیا اور 2016میں اس کا سرکاری سطح پر چالو کردیا گیا۔ 2020میں دریا میں گزشتہ تین دہائیوں کا سب سے بڑا سیلا ب آیا مگر ڈیم نے سیلاب کی کمر توڑ دی۔ یہ سیلاب اتنا زیادہ تھا کہ ڈیم 2003کے بعد اپنی آخری حد تک پانی سے بھر دیا گیا۔خطرہ تھا کہ اگر ڈیم ٹوٹ گیا تو سارے ملک میں آفت آجائے گی اور تباہ کاریوں کو روکنا مشکل ہو جائے گا مگر ڈیم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ڈیم نے 2003 میں بجلی کی پیداور شروع کردی جب پہلی ٹربائن لگی۔2012تک 12ٹربائن جنریٹر ڈیم پر بجلی پیدا کرنے لگ گئے اور ڈیم کی کل پیداوری صلاحیت 22500میگا واٹ کی ہے۔ یہ اس وقت تک دنیا میں پن بجلی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ اب اس ڈیم نے چین کی معاشی حالت میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ 22500میگاواٹ سستی بجلی نے چین کو اس قابل بنا دیا کہ وہ دنیا کے دوسرے تمام ممالک کو اس ریس سے باہر کر سکے۔ ملک اور قوم چار ماہ کے لئے فیصلے نہیں کرتے وہ چار سو سال کا سوچتے ہیں۔