گزشتہ روز ایک معاصر قومی جریدے کے کالم نگار حضرت پیر محمد ضیا الحق نقشبندی، اپنے ایک کالم کی وساطت سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے مخاطب تھے، اس مخاطبت کا مقصد تو شاید کچھ شکوہ و شکایت ہوگا،مگر پیر صاحب پوری کوشش کے باوجود مروت اور محبت کے دائرے سے باہر نہ نکل سکے اور وہ نکل بھی کیسے سکتے تھے کہ بعض " مشترکہ نسبتیں " بھی تو تعلق کا ایک مضبوط ذریعہ ہوتی ہیں، ایک درگاہ پہ نیازمندی پیش کرنے والے بھی ایک دوسرے کے مونس و غموار بن جاتے ہیں،ایک جگہ پر اکٹھے بیٹھنے والوں میں بھی خیر خواہی پروان چڑھ جاتی ہے۔ کسی بر گزیدہ ہستی کے فالورز کے درمیان بھی ایک اخوت و بھائی چارہ قائم ہوجاتا ہے، جو کہ بعض اوقات خونی رشتوں سے بھی مقدم ہوجاتا ہے۔ پیر صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اس وقت محسن نقوی کے ویژن، کردار، رفتار، تعمیر وترقی اور طرز ِ حکمرانی کا سکّہ خوب جما ہوا ہے،ہر محفل کا یہ موضوع ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنے گاؤں میں جس نائی سے بال بنواتا ہوں، اس کی زبانی تحسین و تعظیم کے الفاظ ایک سے زیادہ مرتبہ سن چکا ہوں، جو کہ ہمارے دیہاتوں میں رائے عامہ سے آگاہی کا شاید سب سے نمائندہ فورم ہوتا ہے۔ مْحسن صاحب نے پنجاب کی طرز حکمرانی میں ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا ہے، انہوں نے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ کوئی حکمران محض " ایگزیکٹو ڈریسنگ " سے نہیں،بلکہ اپنے عمل اور کردار سے حکمران ہوتا ہے۔ انہوں نے 'جین وجیکٹ' اور واش اینڈویئر کی بالکل عام اور سادہ سی شلوار قمیض جو یقینا 16 جنوری2023ء سے پہلے بھی ان کا معمول تھا ،کو بطور چیف ایگزیکٹو جاری رکھا، مال روڈ پر لاہور کا معروف برانڈ جو مقتدر شخصیات اور سلیبرٹیز کی و اسکٹ، شیروانی اور ملبو سات کو سرکاری خرچ پر تیار کرتا اور پھر ان کی ناپ لینے کی تصویریں اپنے شوروم میں آراستہ کرتا ہے ،ابھی تک وہ اس اعزاز سے محروم ہے۔ اس لیے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ اپنے کام کی دھن میں اتنا مگن ہے کہ اس کو ان چیزوں سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ اس کی دو تین بلیوشرٹیں اور جین کی دو تین پینٹیں اور اتنے ہی سادہ سے شلوار قمیض، ہم سب کو یاد ہوچکے ہیں۔ حالانکہ وہ ان امور کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ اپنے سٹاف اور ٹیم ممبرز کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے، بلکہ ان کی پلیٹوں میں خود کھانا ڈال کر دینے میں طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ اس چہرہ پر سب سے زیادہ اطمینان اور چمک ہوتی ہی اسی وقت ہے جب وہ لوگوں کو کھانا کھلاتے اور کھاتے دیکھتے ہیں۔ میرے وزیر محترم سیّد اظفر علی ناصر کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ آفسز کی ریفریشمنٹ کے جملہ اخراجات وزیر اعلیٰ کی جیب ِ خاص سے ادا ہوتے ہیں۔ اس کا دن چوبیس کی بجائے شاید چھتیس گھنٹے کا ہے، اپنے جاری کردہ ترقیاتی کاموں کو اپنے ہاتھوں سے مکمل کرنے کا خواہاں ہے، اور ہونا بھی چاہیے کہ وہ اس امر کا ادراک رکھتا ہے کہ: ہر کہ آمد عمارت نو ساخت یعنی ہر آنے والا اپنے عہد کا آغاز اپنے اطوار اور انداز سے کرتا اور عہدِ گزشتہ کے منصوبے، خواہ وہ کتنے ہی عوامی افادیت کے حامل کیوں نہ ہوں ان کو نظر اندازکرتا ہے۔ پیر صاحب نے اقتدار، اختیار اور طاقت کے حصول کی طرف بھی کچھ خفیف اشارات میں بات کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ جیسا وہ سمجھ رہے ہیں ویسا نہ ہے، مجاہدِ ملّت مولانا عبد الستار نیازی ایک مرتبہ منصب ِ وزارت پہ متمکن ہوئے، اس عرصے میں ایک مرتبہ، ایک صحافی نے ان سے ایک دلچسپ سوال پوچھا تھا کہ وزارت مذکر ہوتی ہے یا مونث---؟ تو مولانا نے بر جستہ جواب دیا کہ برخوردار اگر وزارت مرد کے ہاتھوں میں ہو تو مذکر ہوتی ہے بصورتِ دیگر مونث۔ پنجاب کے اندر وسائل باہر سے نہیں آئے۔ یہ پنجاب کے اپنے ہی وسائل ہیں،جو ہمیشہ دستیاب تھے لیکن انکا صحیح استعمال اس عہد میںہوا ہے ، جن سے شاہراہیں بن رہی ہیں، ہسپتال اپ گریڈ ہو رہے، مزارات کی تزئین و تعمیر جاری ہے، مفادِ عامہ کے بیسیوں منصوبہ جات روبہ عمل ہیں، یہ کہیں سے قرض نہیں لیا گیا، صرف مخلص اور محنتی لیڈر شپ درکار ہے۔ عربی کی معروف ضرب المثل ہے، جو شخص دروازہ کھٹ کھٹاتا ہے وہ داخل بھی ہو ہی جاتا ہے۔ اگر آپ وقت کے بہتر استعمال، وسائل و توانائی کے صحیح اور بروقت خرچ کے ذریعے کامیاب عہد کے دروازے کو کھٹکھٹانا شروع کردیں تو راستے کشادہ ہو جاتے اور دروازے کْھل ہی جاتے ہیں، محض جینا اور کامیابی کے ساتھ کتابِ حیات پر کامیابی کے نقش ثبت کرنا دو مختلف چیزیں ھیں۔ ہم چونکہ " ایمر جنسیز" اور بے جا اشتہاربازی کے عادی ہیں، کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو پھر حکومت کے سارے ادارے اس پر جھک جاتے ہیں، ہم آگ لگنے کے بعد کنواں کھودنے اور پانی کی ترسیل و بہم رسانی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ آنے والے " کل " سے لاتعلق، ہر کام آخری وقت میں اس وقت کرنے کے عادی ہیں جب پانی سر سے گذرنے کو ہو۔ہمارے ہاں پلان بنتے ہیں لیکن عمل نہیں ہوتا، معاملات طے ہوتے ہیں مگر فالواپ نہیں ہوتا، اسی سبب ان میٹنگزکی کوئی افادیت نہیں رہتی۔ امورمملکت پرتکلف روئیداد سے آگے نہیں بڑھتے۔ کوئی غیر منظم شخصیت، موثر اور مثبت نتائج کی داغ بیل نہیں ڈال سکی۔ کامیاب لیڈر اپنی ٹیم تشکیل دیتا اور ٹیم ممبران سے کام لینے کے ہنر سے آگاہ ہوتا ہے ، وہ ان کی صلاحیت ِ کارمیں اضافے کا خواہاں رہتا ہے، موجودہ حکومت کا ویژن یہی ہے کہ ہر پراجیکٹ کی ٹائم لائن ضرور ہونی چاہیے۔ ہر کام کے لیے وقت کی حدود متعین ہو۔ کمپلیشن ڈیٹ اورڈیڈ لائن کے بغیر کام کا پایہ تکمیل تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔ یومیہ منصوبہ بندی حیرت انگیز نتائج کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ صبح سویرے کا وقت دن بھر کے امور کی انجام دہی کی منصوبہ بندی کے لیے از حد کار آمد اور مفید ہے۔ دفتر روانہ ہونے سے پہلے کاموں کی فہرست ضرور بنائیں ، روزانہ رات کو سونے سے قبل دن بھر کے امور پر ایک طائرانہ نگاہ ضرور ڈالیں۔ اپنے کاموں میں ترجیحات، اہمیت اور ضرورت کو ضرور پیش ِ نظر رکھیں۔ کاموں کی فہرست میں " اہم اور "فوری" کے درمیان امتیاز ہونا چاہیے۔ تخلیقی اور تحریری امور خاص ماحول کا تقاضہ کرتی ہیں۔ Writing" "Contentایک مشکل کام ہے۔ "پبلک ڈیلنگ" کے دوران اس کی انجام دہی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے خاص وقت کی شناخت کرلیں، کامیابی کے لیے اپنی ہر صبح کو ہمیں پْر عزم بنائیں۔ اپنے امور کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیجئے، کہ وہ آپ کی محنت کو کبھی رائیگاں نہیں ہونے دے گا۔ ایک دعا کاترجمہ ملاحظہ ھو: اے میرے رب میں تیری پناہ لیتا ھوں کاہلی اور سخت بڑھا پیسے۔ اے میرے رب میں تجھ سے وہ بھلائی جو اس دن میں ہے اور جو اسکے بعد ہے وہ سب مانگتا ہوں اور جو برائی اس دن میں اور جو اسکے بعد ہے اس سے تیری پناہ لیتا ہوں۔