گزشتہ روز،وزیر اعلیٰ پنجاب نے جڑانوالہ کے متاثرہ علاقوں کامفصل دورہ کیا۔ عیسیٰ نگری کے چرچ کی’’سنڈے سروسز‘‘میں شامل ہوئے،محض 24 گھنٹے کے مختصروقت میں حیران کن طور پر،چرچ کی تزئین و مرمت اور انفراسٹرکچرکی ریسٹوریشن کااہتمام ہوا۔خطے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب کیبنٹ کااجلاس ایک چرچ میں ہوا ،چیف سیکرٹری نے بطور سیکرٹری کیبنٹ کابینہ کی کارروائی کنڈکٹ کی ، ہرمتاثرہ خاندان کیلئے 20 لاکھ روپیہ فی فیملی امداد کا ایجنڈا منظور ہوا،آئی جی پولیس ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ، سکرٹری اوقاف اور سیکرٹری سی & ڈبلیو سمیت ذمہ داران ہمراہ ہوئے۔ یقین واثق اگلے 48 گھنٹے میں رقم متاثرہ خاندانوں تک پہنچ جائے گی۔وزیراعلی نے منصبی کروفراورسرکاری پروٹوکول سے مکمل اجتناب کیا،پوری ٹیم کو ایک کوسٹر میں ساتھ لیا۔۔۔کہ غم،دکھ اور نقصان کے مداوے اورازالے کیلئے کسی کے ہاں جانے کی یہی روایت معتبرہے۔ دانش سکول میں قائم ریلیف کیمپ کا دورہ کیا، غم ذدہ ، دکھی ، سہمی ہوئی مفلوک الحال فیملیزکے دکھ بانٹے ، ان میں تحائف تقسیم کئے۔ صابری مسجد میں مقامی امن کمیٹی سے خصوصی نشست کی۔ مقامی سکالراورعلما اس امرپرمائل ہوئے کہ وہ مسیحی برادری کو دعوت دیں گے کہ جب تک انکے چرچ اور عبادتگاہیں ریسٹور نہیں ہوتیں انکی عبادات کیلئے ہماری مساجد حاضرہیں۔مقامی مسلم کمیونٹی نے وزیراعلی کی ریلیف سرگرمیوں کو سراہا۔۔۔ اورسراہنا بھی چاہیئے کہ جڑانوالہ تو ہمیشہ سے باہمی رواداری مرکزتھا۔ جڑانوالہ کبھی بھی ایسا نہیں تھا جیسا کہ 17اگست کے روز نظر آیا، یہ تو پرْاَمن خوش کْن، خوشگوار اور آسودہ حال لوگوں کا شہر تھا۔ کلونیل پریڈ میں اس کے کوچہ و بازار کشادہ اور جدیدِ طرز ِ ترتیب سے آراستہ ہوئے۔ دنیا میں دیگر ترقی یافتہ شہروں کی طرح جڑانوالہ بھی " GIS " پر سرچ کیا جاسکتا ہے، "جیوگرافک انفارمیشن سسٹم" یعنی جدید دنیا کا ایسا ترقی یافتہ نظام، جس میں کسی بھی علاقے کے انفراسٹرکچر، سٹرٹیجک معاملات، لینڈ ریکارڈ اور میونسپل سہولیات کو اس کے جدید سیٹلائٹ اِمیج پر منطبق کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک وسیع علاقے کو ایک سکرین پر ایک" کی بورڈ" کی مدد سے مربوط و منظم کردیا جاتا ہے۔ اور پھر اس "GIS" کے ذریعہ کسی بھی جگہ اپنے لیپ ٹاپ پر پورے علاقہ کی معلومات اور نگرانی کی جاسکتی ہے۔ انٹر فیتھ ہارمنی سے مْزَیّن اور بین المسالک ہم آہنگی کے امین۔اس شہر کی دانست ، فطرت اور جینز میں ہی تھکے ماندے مسافروں کے لیے آسودگی و استراحت کا اہتمام تھا، جو ’’جڑاں والے‘‘ اِس کنویں کے کنارے، برگد کے گھنے اور قدیم درخت کے سائے میں راہگیروں کو میسر آتی۔ جس کے سبب، صدیوں قبل اسی بستی کا نام ’’جڑانوالہ‘‘معروف ہوا۔ ہماری Wisdom" "Folkمیں بوہڑ یعنی برگد کے بارے، بہت سی باتیں معروف ہیں، جیسے " بوہڑ کے نیچے بوہڑ نہیں اْگلتا"، عمومی طور پر ایسی بڑی اور قد آور شخصیات پر اِس کو منطبق کیا جاتا ہے، جن کی اولاداْن کے پائے کو نہیں پہنچتی۔ بہر حال جڑانوالہ کی وجہ تسمیہ اس کی مرکزی شاہراہ کے بڑے کنویں کے گرد بوہڑ کے اْس درخت کی وہ جڑیں ہیں، جو قدامت کے باعث بعض اوقات درخت کے تنے اور شاخوں سے بھی نکل آتی ہیں۔ علامہ سعید الرحمن ثاقب نے بتایا کہ یہ کنواں چوک240 موڑ سے سیّد والہ کی طرف محلہ اسمعیل آباد کی گلی نمبر2 کے اختتام پر آرمی ریمونٹ کی باؤنڈری کے اندر واقع اور امتدادِ زمانہ کے سبب اب زندہ درگور ہے، یعنی اس میں زندگی کی رمَق پانی کی صورت میں تو موجود ہے ، مگر ان مقامی بستیوں کی جدّت طرازی اور شہری سہولیات کی آراستگی نے ایسے قدیمی مقامات کو قدرے Dated" "Out کردیا۔ قارئین شاید یہ جان کر قدرے حیرت زدہ ہوں کہ مذکورہ چوک240 موڑ سے متصل ہے، چک240 گ ب کو یہ اعزاز میسر ہے کہ معروف پولیس افسر رانا مقبول خاں کا تعلق اسی بستی سے تھا۔ لاہور --- ملتان موٹر وے نے 240 موڑ کو ایک مرتبہ پھر مرکزیت عطا کردی، اور اب آپ اس موٹروے سے جڑانوالہ --- سیّد والہ انٹر چینج پر اْتر کر، محض 12 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے 240 موڑ سے ہوتے ہوئے جڑانوالہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جڑانوالہ وسطی پنجاب کا ایک اہم علاقہ ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں " Planning Aristocraticکا شاہکار۔ زرعی طور پر دنیا کی معروف گوگیرہ برانچ سے سیراب ہوتی اور صنعتی حوالے سے نصف صدی قبل پٹ سَن، شوگراور فرٹیلائزر جیسے اہم صنعتی حوالوں سے معروف اور معتبر۔ یہاں کی آبادی سو فیصد علم و ہنر سے آراستہ، آدابِ معاشرت سے آگاہ، فکر وفن کی دلدادہ سپورٹس کی رسیا۔ مذاہب اور مسالک سے وابستہ، صوفیا سے تمسک۔ علمی ذوق، رواداری اور انسان دوستی جیسے بنیادی جذبوں سے پھر پور آگاہی کی حامل۔ شہر کی مرکزی شاہراہ پر عشروں سے سالویشن آرمی چرچ قائم جو کہ ابتدائی طور پر شہر کا مرکزی چرچ تھا، جہاں مسیحی برادری کم و بیش نصف صدی سے اپنی عبادت اور دینی امور کی بجا آوری کا بطریقِ احسن اہتمام کرتی۔ یہ پروٹسٹنٹ چرچ کی ذیلی شاخ ہے۔ جن کا صدر مقام لندن میں ہے، اس کی ابتداء 1865ئ، لند ن ہی میں ہوئی۔ اس کا سٹاف ایک مخصوص سپاہیانہ یونیفارم میں ہوتا ہے۔ وزیراعلی کے دورے سے ایک روز قبل انکی تالیف قلب کیلئے گیا تو اْن میں وہ روایتی نرمی اور گداز نہیں تھا، ساقِط اور جامِد--- جلے ہوئے چرچ کے خس و خاشاک پر۔منیرنیازی کے بقول؛ جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر غم سے پتھرھوگیالیکن کبھی رویا نہیں وہیِ چرچ---جس کی پیشانی سے ’’صلیب‘‘کا مقدس نشان بے دردی سے گرادیا گیا۔ انہوں نے جلے ہوئے اْوراق کی انجیل مقدس ہاتھوں میں تھمادی۔ ایسے میں کس کے آنسو تھم سکتے تھے۔ یہ ہمارے دین کی تعلیم نہیں، ہمارے رسول ﷺکا اسوہ نہیں، ایک بوڑھا مسیحی کانپتے لفظوں سے کہہ رہا تھا کہ قائد اعظم نے تو اس خطّے میں بسنے والے ہر شہری کو مکمل آزاد ی دی تھی، اور اسی سوچ و فکر کے سبب ہی پنجاب کے پاکستان سے الحاق کے لیے فیصلہ کن ووٹ مسیحی راہنما نے دیا۔ لیکن یہ سب کچھ اس لیے تو نہیں کیا گیا تھا کہ ہر جتھہ اور گروہ اپنی طاقت کے بل بوتے پرقانون ہاتھ میں لیکر دوسروں کوہانکتا پھرے۔ رسولِ رحمتﷺ نے تو اس مسیحی قوم کو قیامت تک امان فراہم کی تھی۔ عشروں پہلے، اسّی کی دہائی میں جب پنجاب میں فرقہ واریت کی لہر نے سر اْٹھایا تھا تو جڑانوالہ کی مذہبی لیڈر شپ نے مقامی ضلعی انتظامیہ کے اشتراک سے دو روزہ قومی سیرت النبی کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں وطنِ عزیز کے اکابر علماء جس میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی، مولانا سیّد عبد القادر آزاد، مولانا سیّد نسیم عباس رضوی،جیسے اکابرین اسی تحصیل کونسل ہال کی وسیع گراؤنڈ میں آراستہ سٹیج پر ایک ہی وقت میں جلوہ آراء ہوئے تھے۔ کیا زبان و بیان اور محبت و مروت تھی ان مذہبی شخصیات و عمائدین میں۔ انہوں نے یہی بات اْمّت کو سیکھائی اور سمجھائی کہ اسلام سلامتی اور امن کا دین اور امن ِ عالم کا سب سے بڑا علمبردار ہے، پیغمبرِ اسلام کل جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ اسلام دنیا کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہے اور یہ ضمانت زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہے اور قیامت تک انسانی تمدن کے ماتھے کے جھومر، علم و دانش کی آبرو اور حکمت و تدبر کا وقار ہیں۔ رحمت ِعالم ﷺکے جنگی معرکوں کا نتیجہ بھی پائیدار اَمن کی صورت میں نمودار ہوا۔