عربی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے خواہ وہ افریقی ممالک کیوں نہ ہوں ،عرب ہی سمجھے جاتے ہیں۔مصر براعظم افریقہ میں ہے مگر عرب ممالک میں ہی سمجھا جاتا ہے۔ بہت سارے افریقی ممالک عرب قوم کا لازمی حصہ ہیں۔اس لیے عرب دنیا دو براعظموں کے کم و بیش چوبیس ممالک تک پھیلی ہوئی ہے جن میں مشرق وسطیٰ اور الجزائر سے لے کر مصر تک سبھی عرب دنیا ہی سمجھے جاتے ہیں۔ان میں ایک آدھ ملک کے سوا تمام ممالک میں شاعری کا ذریعہ ِاظہار عربی ہے۔ عربی زبان کی شاعری خواہ وہ افریقہ کے ممالک میں لکھی گئی ہو ایک شکست خوردہ قوم کی شاعری ہے۔ساری قوم مستقبل سے مایوس ہے۔جس حال کو استعمار اور اس کے گماشتوں نے اس قوم کو پہنچا دیا ہے وہاں کسی قسم کی امید کی کرن کا تصور محال کر دیا گیا ہے۔فلسطین، اردن، شام اور لبنان کے شاعر تو بے طرح مایوس ہیں۔ البتہ نئی نسل نے موت کو اپنی منزل سمجھ کر جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ہماری چند عرب شاعروں سے دوستی ہے ۔ان میں سے کوئی نابلوس میں ،کوئی رملہ میں پیدا ہوا۔ یروشلم میں تعلیم حاصل کی مگر اب کوئی اردن کوئی لبنان اور کئی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کے حالات سے آگاہی ان کے فیس بک وال سے ہوتی رہتی ہے۔وہ لوگ روزگار سے محروم اور ایک وقت کے کھانے ،ایک کپ کافی اور چائے کی استطاعت تک بھی نہیں رکھتے۔ان میں سے بعض شعرا کی نظموں کے ترجمے ہم نے کیے تھے۔ ان میں سے ایک سکینہ حبیب اللہ ہیں ان کا تعلق تو الجزائر سے ہے مگر عربی میں نظم کہتی ہیں۔زیاد حداش رملہ میں ہوتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیل نے ان کی تمام تنخواہ بند کر دی ۔گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی ۔گھر میں کچھ بھی نہ تھا، نہ کھانے کے لیے بریڈ نہ پینے کے لیے کافی۔ ان کے دوست زکریا محمود آگئے۔ان کو پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ سارے فلسطینی ایسے ہی زندگی گزار رہے ہیں۔مہمان سے معذرت کی کہ سارے ایک طرح کے جبر اور حالات کا شکار ہیں۔زکریا چلے گئے۔ دوسرے دن وہ کیمپ سے آئے تو ان کے ورانڈے میں پانچ سو شیکل کے نوٹ بکھرے پڑے تھے۔انہوں نے دل میں زکریا کو دعائیں دیں۔ الفاظ گلے میں پھنس گئے۔شیکل اسرائیل کی کرنسی ہے اور ہم سے پانچ گنا مضبوط کہ ایک ڈالر ستتر شیکل کے مساوی ہوتا ہے۔فلسطین کی حکومت کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کوئی کرنسی ہی نہیں ہے۔وہاں اسرائیل کی شیکل اور اردن کی کرنسی میں کاروبار زندگی چلتا ہے۔ اسرائیل کی معیشت دنیا کی مضبوط معیشت ہے اور فی کس آمدنی 45000 ڈالر کے لگ بھگ ہے اور الا ماشااللہ پچھہتر سالوں کے بعد اپنے ملک کی دو ہزار ڈالر سے بھی کم ہے۔فلسطین کی فی کس آمدنی بھی ہم سے زیادہ ہے۔وہاں نہ زمین نہ ہوائی راستہ نہ ذرائع ہیں مگر چار ہزار ڈالر کے قریب ہے۔جب ایک فلسطینی فی کس آمدنی میں ہم سے دو گنا ہے اور مہمان کو چائے پیش کرنے کے لیے گھر میں کچھ بھی نہ تھا تو یہاں کے حالات کیا ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔فلسطین کی تجارت کا اسی فیصد اسرائیل کے ساتھ ہے اور اس کی برآمدات میں سٹیل، سیمنٹ اور ڈیری کی اشیا شامل ہیں۔اسرائیل کرپشن کے لحاظ Clean Veryشمار کیا جاتا ہے کہ کرپٹ ممالک اور معاشروں میں شامل نہیں ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے ایران کی معیشت بھی Clean Veryہی شمار کی جاتی ہے۔ فلسطین کے شعرا بھی دوسرے لوگوں کی طرح دربدر ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ان کی شاعری میں بے گھری، دربدری اور بے وطنی کے موضوعات مختلف شیڈز کے ساتھ آتے ہیں۔نوجوان نسل نے محمود درویش اور نزار قبانی سے الگ راہ نکالی ہے اور اس کی بنیادی وجہ جدید عرب نظم کے شعرا ادونس کی شاعری ہے۔ادونس کی عمر اس وقت نوے سال سے زیادہ ہے۔ انہیں دنیا کا سب سے بڑا زندہ شاعر مانا جاتا ہے۔افریقی عرب ممالک کے شاعر فلسطین کا براہ راست ذکر نہ بھی کریں تو نظم میں زیریں سطح پر فلسطین کی لہر چلتی رہتی ہے۔نزار قبانی کا اسلوب اب رواج نہیں رہا ان کا وہی اسلوب ہے جو ہمارے فیض صاحب کا ہے۔فیض صاحب کا بھی اب نظم نگاروں پر جادو نہیں چلتا بلکہ کبھی بھی نہیں چلا اور ہمارا نظم نگار راشد کے ساتھ جڑتا گیا۔عرب نظم پر بھی نزار قبانی سے زیادہ ادونس کا اثر ہے۔ پھول کی اناٹومی کی شاعرہ کا تعلق الجزائر سے ہے۔جدید عرب نظم کے مزاج کو سمجھنا ہو تو یہ نظم بہت کچھ بتا سکتی ہے۔عرب عوام کے مزاج کی تطہیر کرتی یہ نظم بزبان حال کہہ رہی ہے کہ عرب قوم کا اب مستقبل کیا ہے۔نوجوان عربوں کے پاس اب تلوار اور بندوق نہیں یہ سب کچھ اس سے چھین لیا گیا ہے۔اب ان کے پاس غلیل اور پتھر ہیں۔مائیں بچوں کو اب قربان ہونے کے لیے جنم دیتی ہیں۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں چائلڈ لیبر عروج پر ہے جس سے اہل خانہ کا دال دلیا چلتا ہے۔ ان پر زندگی کے سارے دروازے بند ہیں۔ نظم ایک پھول کے کھلنے کی خواہش سے شروع ہوتی ہے۔پھول کا استعارہ بذات خود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ گولی نہیں پھول کی بات سنو۔جب پھول نے اپنے اور اس زمین کے درمیان لامحدود فاصلے کو دیکھا تو اس نے سب سے پہلے کانٹے نکالے۔اس کا بے انت سفر پودے کی پتلی ٹانگ سے ہونا ناممکن تھا تو اس نے اپنی مہکار کے بارے میں سوچا۔آپ نظم پڑھیں اور فلسطین کے مسلمانوں اور اپنے پاکستانیوں کیلئے بھی دعا کریں کہ اس قوم کا مستقبل بھی امید افزا ہو۔ پھول کی اناٹومی پھول نے پہلے اپنے اور اِس دھرتی کے بیچ/پھیلی ہوئی وسعتیں دیکھیں/تب اس نے کانٹے نکالے/پھول نے دیکھا/لمبا سفر ہے اور اک ٹانگ پودے کی ناکافی ہے/اس کی آواز معدوم اور/گونج ناپید ہے/تب اس نے خوشبو کا سوچا/چمکتی ہوئی پتی ہے ناف/ڈنڈی ہے دھاگہ جو اس کو زمیں کی محبت بھری کوکھ سے باندھ لیتی ہے/تب پھول نے سوچا/اک دن کِھلے گا وہ عاشق کے ہاتھوں پہ/یا وہ کتابوں کے ساحل پہ مہکے گا!!!