گزشتہ ہفتے ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے سے گزر ہوا تو پورے اڈے کو ایک نعرے یا نصیحت Do your thingسے سجے ہوئے دیکھا۔تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ دراصل وہاں کے ایک بین الاقوامی بنک کے تعاون سے چلائی جانے والی تین سالہ اشتہاری مہم کا حصہ ہے جس کے تحت معاشرے کے تمام طبقات کو اس چیز پر راغب کیا جائے گا کہ وہ اپنا کام کریں۔ راقم یہ کھوج لگاتا رہا اور ساتھ سوچتا بھی رہا کہ اس مہم کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ یورپی معاشرہ بلکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ معاشروں کی ریت ہی یہی ہے کہ وہ اپنا کام کرتے ہیں۔ اسی لئے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے غیر ترقی یافتہ معاشروں سے وہ لگ بھگ پانچ سو سال آگے ہیں۔ ’’اپنا کام کرو‘‘ کے دو پہلو ہیں، ایک تو یہ کہ جو کام آپ کے ذمہ لگا ہے یا جو کام آپ نے خود اپنے ذمے لیا ہے، جس کی آپ نے تعلیم و تربیت حاصل کی ہے، جو ہمیشہ آپ نے اپنایا ہے آپ اس کام کو اس طریقہ سے کریں جیسا اس کو کرنے کا حق ہے۔ یعنی پوری دلجمعی کے ساتھ، پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ذمہ کام کو کرنے کی کوشش کرو تاکہ اجتماعی ملکی و قومی ترقی میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈال سکو ۔کوئی بھی شہری خاتون خانہ سے لے کر حکومت کے سربراہ تک،کسی عالم دین سے صحافی اور استاد تک‘ کسی باوردی سپاہی سے لے کر بڑے سے بڑے افسر تک جب سب اپنا اپنا کام پوری ایمانداری سے کرنے لگ جائیں تو اس سے بڑا کسی معاشرے کی ترقی کا اور نسخہ کیا ہو سکتا ہے؟ ’’اپنا کام کرو‘‘ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو جو تمہارے ذمے ہے اس کو کرنے کا حق ادا کرو، دوسروں کے معاملات میں ٹانگ مت اڑائو۔ ترقی یافتہ معاشروں کی یہ نہایت پختہ روایت ہے کہ یہاں تمام لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کوئی دوسرے کے معاملات کی سن گن رکھنے کی کوشش نہیں کرتا ،کوئی کسی کو زبردستی مشورے نہیں دیتا ۔کسی کو کوئی غرض نہیں کس نے کیا پہنا ہوا ہے۔ کیا کھا رہا ہے‘ کس طرح کے گھر میں رہ رہا ہے۔ کون سی گاڑی کا مالک ہے کتنی تنخواہ لے رہا ہے یا کاروبار سے کتنا کما رہا ہے۔ اس طرح کے ذاتی نوعیت کے معاملات میں ناک گھسیڑنا اور کسی سے ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھنا انتہائی غیر مہذب اور گھٹیا درجے کا معاشرتی عمل سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر یورپ‘ آسٹریلیا اور جاپان تک تمام ترقی یافتہ معاشرے باہمی تعلقات کے معاملے میں اسی انسانی و معاشرتی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان میں انسانی ہمدردی کے جذبات نہیں ہیں ،وہ ہم سے زیادہ ہمدرد ہیں اس لئے تو بل گیٹس اور مارک زکربرگ جیسے بے شمار لوگ ہیں جو ایک ہی جھٹکے میں اپنی پچاس پچاس یا بتیس بتیس ارب ڈالر دولت عوامی فلاح کے کاموں کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ جس کی مثال ہمارے معاشرے میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ لیکن ان کی انسانی ہمدردی کی حدود وہاں ختم ہو جاتی ہیں جہاں کسی کے ذاتی معاملات شروع ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس سے بالکل مختلف رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ہم کسی کو انسان ہونے کے ناتے سے نہیں جانچتے بلکہ دنیاوی میسر وسائل سے کسی کے مقام کا تعین کرتے ہیں اور اسے بھی کسی کے ساتھ تعلقات کی بنیاد بناتے ہیں۔ اس لئے کسی کے ذاتی معاملات کی سن گن ہماری معاشرتی روایات کا بنیادی عنصر بن چکی ہے۔ عید آئے گی تو کہیں گے کیا قربانی دے رہے ہیں؟ کوئی بکرا لیا ہے؟ کتنے کا لیا ہے؟ پوچھیں گے یہ گاڑی آپ کے مقام سے میل نہیںکھاتی تبدیل کیوں نہیں کرتے‘ یہ کاروبار آپ کے مقام کے مطابق نہیں ہے۔کوئی بہتر کام کیوں نہیں کرتے ؟ جس علاقے میں آپ رہائش پذیر ہیں یہ کم تر لوگوں کا علاقہ ہے۔ فلاں علاقے میں گھر کیوں نہیں بنا لیتے ؟ آپ کو یہ کرنا چاہیے آپ کو وہ کرنا چاہیے جیسی گفتگو روز مرہ کی ملاقاتوں میں آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی جو ایک خاص طرح کے تکبر کا نتیجہ ہوتی ہے جس سے ہم نام نہادقسم کی محبت اور اپنائیت کے نام پر اپنے میل جول والے لوگوں کو احساس کمتری اور پریشانی میں مبتلا کر رہے ہوتے ہیں۔ کالم نگار سمجھتا ہے کہ یہ رویہ اس چیز کا عکاس ہے کہ تہذیبی طور پر ہم عام دنیا سے کئی سو سال پیچھے رہ رہے ہیں۔اپنے کام کے معاملے میں ہم کام چور ،کاہل اور بے ایمان ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو ایمانداری ‘ دلجمعی اور پوری صلاحیتوں کے ساتھ اپنا کام کرتا ہو اور شاید ہی کوئی ہو جو اپنے کام سے کام رکھتا ہو۔ امریکہ میں ہمارے ایک پاکستانی دوست کے گورے امریکی کولیگ نے اس سے پوچھ لیا کہ جس طرح آپ لوگ اپنے کام کے اوقات کے دوران کام پر دیر سے آتے ہو‘ چھٹی کے وقت سے پہلے کام چھوڑ کر دفتر سے چلے جاتے ہو اور کام کے دوران بھی دلجمعی سے کام نہیں کرتے ہو تو کیا سمجھتے ہو کہ اس طرح آپ لوگ اپنی تنخواہ کو حلال کرتے ہو؟ شرمندگی کے سوا پاکستانی بھائی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ دیکھیں تو عام قاصد اور چوکیدار سے لے کر ہمارے ہاں بڑے سے بڑے سرکاری افسر‘ وزیر حتیٰ کہ وزیر اعظم کا بھی عموماً یہی رویہ ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ایسے رویے نہ صرف اعلیٰ انسانی ،تہذیبی روایات کے خلاف ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہیں۔ ساتھ ہی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ہمارے ساتھ ہی آزاد ہونے کے باوجود ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے ۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اپنا کام کرنا ہے اور اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ یہی بنیادی کنجی ہے جو کامیابی کے زینے کے دروازے کو کھولنے کا سبب بنتی ہے۔ کاش وہ دن بھی آئے جب ہم اس چیز کا ادراک کر لیں۔