دیر آید درست آید کے مصداق اس وقت حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ ان مذاکرات میں کچھ گلے شکوے بھی ہو رہے ہیں اور آگے بڑھنے کے لیے راستوں کا تعین بھی کیا جا رہا ہے۔ جیسے جمعرات 27 اپریل کو حکومت اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان پہلا دور ہوا، تحریک انصاف کے وفد میں شاہ محمود قریشی‘ فواد چودھری اور بیرسٹرعلی ظفر شامل تھے۔ انہوں نے تین شرائط پیش کیں، پہلی یہ کہ رواں برس مئی میں قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں یعنی سندھ اور بلوچستان تحلیل کر دی جائیں، دوسری شرط یہ کہ 14 مئی کو انتخابات نہیں کرانے تو ایک ساتھ انتخابات کیلئے آئین میں ترمیم کی جائیں، آئینی ترمیم کیلئے پی ٹی آئی اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے واپس لینا ہوں گے۔ تحریک انصاف کی تیسری شرط میں کہا گیا کہ رواں برس جولائی میں الیکشن کرائے جائیں۔ دوسری طرف حکومتی اتحاد بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں،مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت تو سرے سے مذاکرات کا حصہ ہی نہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی سہولت کاری میں مذاکرات کیلئے مولانا فضل الرحمان کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی تھی،مولانا فضل الرحمان نے کسی حد تک شمولیت کا اشارہ بھی دے دیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت اور اپوزیشن سے  چار چار افراد کے نام کیلئے خطوط ارسال کئے تو تحریک انصاف کا نیا موقف سامنے آ گیا‘ پی ٹی آئی نے جوابی خط میں اصرار کیا کہ عمران خاں نے مذاکرات کیلئے جو تین رکنی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے، اسی کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں، یوں حکومت کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا اور سینیٹ سیکرٹریٹ کے بجائے قومی اسمبلی کے کمیٹی روم میں مذاکرات آغاز ہوا۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا کہ وہ مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے۔ 28 اپریل کو مذاکراتی کمیٹی کے خصوصی وفد کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہوا، جس میں مذاکراتی کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے بھی ملاقات کی‘دونوں طرف سے معاملات میں مثبت پیش رفت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے‘ شاہ محمود قریشی کے بقول اچھے ماحول میں گفتگو ہوئی اور ہم نے مناسب پیش رفت حاصل کر لی ہے‘ جس پر عمران خاں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے یہاں تک کہا کہ منگل دو مئی یعنی آج ہونے والا مذاکرات کا تیسرا دور فائنل ہو سکتا ہے۔اور ہمارے ذرائع کے مطابق حکومت نے لچک دکھاتے ہوئے اکتوبر میں الیکشن کے بجائے ستمبر میں کروانے کی بھی حامی بھر لی ہے جبکہ پی ٹی آئی مئی سے آگے بڑھتی ہوئی جون جولائی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ یعنی کچھ نہ کچھ طے پانے جا رہا ہے۔ بہرحال اب جب یہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور کامیابی کے بھی80فیصد سے زائد امکانات ہیں تو ایسے میں پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس نے دھاوابول دیا ہے، جو سیاسی بحران کو مزید گہرا اور راہوں کو مزید تاریک بنا گیاہے۔ عمران خاں نے اس چھاپے کے بعد نئی حکمت عملی دینے کا اعلان کیا ہے اور اس کی کچھ وضاحت فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کی اور کہا کہ پرویز الٰہی کے گھر پر حملہ‘ علی امین گنڈا پور کو ضمانت کے باوجود حبس بے جا میں رکھنا اور ورکرز کی گرفتاریاں مذاکراتی عمل کو بے معنی بنا رہی ہیں۔اگر حکومتی مذاکراتی ٹیم یقین دہانی کے بعد ماحول بہتر رکھنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی تو وہ بڑے فیصلے کیسے کرے گی؟پرویز الٰہی نے اپنے گھر پر پولیس چھاپے اور کارروائی پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے تو دوسری طرف پنجاب پولیس نے پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن ٹیم نے پرویز الٰہی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو اس دوران رہائش گاہ میں موجود 40 سے 50 افراد نے پتھرائو اور تشدد شروع کر دیا، چھاپہ مار ٹیم پر پٹرول پھینکا گیا اور اس دوران پرویز الٰہی فرار ہو گئے۔ ان واقعات کے بعد بھی کسی کو لگتا ہے کہ ملک کے سیاسی اور معاشی حالات میں بہتری ممکن ہے تو وہ پاگل پن کی حد تک رجائیت کا شکار ہے۔ خیر اب آجائیں اس اینٹی کرپشن چھاپے کے ’’ذمہ داران‘‘ پر… تو جناب! اس وقت نا تو نگران حکومت ہی اس پولیس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی پنجاب کی نگران حکومت۔ بلکہ سنا ہے کہ نگران وزیرا علیٰ محسن نقوی تو اس وقت ملک میں ہی نہیں ہیں۔اور رہی وفاق کی بات تو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی سے رابطہ کرکے چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پولیس کے حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کے گھر پر ایکشن سے وفاق کا تعلق نہیں! لہٰذااگر ایسا ہے تو پھر یہ اقدام کس کے کہنے پر ہوا ہے؟ اگر یہ اقدام تیسری قوتوں کے کہنے پر ہوا ہے تو پھر سیاستدان تیاری پکڑلیں کہ خاکم بدہن کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ کیوں کہ 1977ء میں پاکستان نیشنل الائنس (PNA) اور پیپلزپارٹی کے درمیان بھی نئے الیکشن کروانے اور دھاندلی جیسے الزامات سے نمٹنے کے لیے ایسے ہی مذاکرات جاری تھے جس میں کم و بیش 10سے زیادہ نشستیں ہوئیں۔ تین جون 1977 کو حکومت اور پی این اے کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ دوسرے اجلاس میں پی این اے کے سربراہ مفتی محمود نے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جس میں جزئیات پر اختلاف ہوا لیکن آخرکار ذوالفقار علی بھٹو (نہ چاہتے ہوئے بھی) مان گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور مذاکرات کی آٹھویں نشست میں حکومت کا اصرار تھا کہ انتخابات نومبر میں ہوں گے جبکہ پی این اے کا مطالبہ تھا کہ 14 اگست 1977 سے پہلے کروائے جائیں۔ 15 جون 1977 کو نویں نشست منعقد ہوئی اور مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہو گئے اور فریقین کے دستخط کے بعد مکمل متن پریس کو جاری کرنے پر اتفاق ہو گیا۔پھر بھٹو صاحب کی جانب سے کچھ مسائل کا سامنا ہوا، مگر اُس وقت کے سینئر سیاستدان ایک نتیجہ پر پہنچے اور 4جولائی کو بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے ساری باتیں مان لیں ہیں مگر یہ لوگ مجھ پر انحراف کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھی پی این اے کے جلد ہی تحفظات کو دور کر لیا جائے گا وغیرہ ۔ لیکن اگلے دن پانچ جولائی کو پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہی وہ دن تھا جب پاکستان میں سورج طلوع ہونے سے قبل ہی پورے ملک میں مارشل لا نافذ ہو چکا تھا، فوج کی اس کارروائی کو ’آپریشن فیئر پلے‘ کا نام دیا گیا تھا، یہ کوئی اچانک اور غیر متوقع اقدام نہیں تھا۔ پانچ جولائی 1977 کی صبح چھ بج کر چار منٹ پر مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مسلح افواج نے پانچ جولائی کی صبح سے ملک میں نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور تمام سیاسی رہنما عارضی طور پر مارشل لا حکومت کی حفاظت میں ہیں۔لہٰذاآج بھی صورتحال ویسی ہی بنائی جا رہی ہے، ورنہ مذاکرات کے دوران اس قسم کے آپریشن کا کوئی ’’تُک‘‘ نہیں بنتا۔