وہ خواب جو حضرت قائد اعظم ؒکی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا‘ 76 برسوں بعد اس خواب کی تکمیل کی جانب کم از کم پیش قدمی شروع کرنا ہوگی‘ وطن عزیز کے تمام تر مسائل اور بحرانوں کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں کیونکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ناکامی کی تمام تر وجوہات کے پس پردہ یہی عوامل ہیں کہ ہم ملک و ملت کا درد محسوس کرنے سے قاصر ہیں‘ کسی بھی معاشرے‘ مملکت یا ریاست میں انسانی حقوق کی آزادی یا جمہوریت کی مضبوطی ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد ممکن ہوئی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص روزانہ دیکھتا اور پڑھتا ہے کہ اسلامی ممالک سے زیادہ غیر اسلامی ممالک جو کہ جدید جمہوری خطوط پر استوار ہیں وہاں فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کے خلاف کھل کر بڑے بڑے احتجاج ہورہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ پولیس کے دستے ہوتے تو ضرور ہیں لیکن ان پر بلا جواز تشدد نہیں کرتے‘ نہ ہی بے بنیاد مقدمات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے‘ وطن عزیز میں ایک وہ نسل جن کی عمریں دس سال سے 15 سال تک ہیں‘ یہ بچے موبائل فون اور کمپیوٹر سکرین کے ذریعے براہ راست سوشل میڈیا کی صورت میں حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل کررہے ہیں‘ جانے انجانے میں ان کے شعور اور لاشعور میں متعدد سوالات جنم لیتے ہیں اور نتیجتاً وہ وطن عزیز کو درپیش نامساعد حالات پر اپنی معصومانہ رائے قائم کرتے ہیں‘ جن کے نزدیک پاکستان میں ہر کام انوکھا اور نرالہ ہے‘ وہ تصور کرنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی کام میرٹ پر نہیں ہوسکتا‘ ان کی اسطرح کی سوچ کیا حقیقی معنوں میں غلط ہے؟ معذرت کیساتھ معاشرہ جو کچھ برداشت کررہا ہے اس کے ردعمل کی صورت میں ایک و ہ نسل جس نے ابھی اوائل جوانی میں قدم رکھنا ہے؛ وہ ہمارے سسٹم اور طاقتور اشرافیہ سے اس حد تک نفرت میں مبتلا ہوچکی ہے قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کی آمریت‘ قبل ازیں میجر جنرل سکندر مرزا‘ گورنر جنرل ملک غلام محمد وغیرہ کے ادوار میں پولیس حق مانگنے والے پرامن شہریوں کیخلاف استعمال کی جاتی تھی‘پھر پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی صورت میں شعور دیا‘ جس کے بعد بھٹو پر ایف ایس ایف کے حوالے سے سیاسی مخالفین تنقید کرتے رہے‘ ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کے حوالے سے اپوزیشن کے کئی تنقیدی بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں‘ اس سے ہوا یہ کہ مرحلہ وار احتجاج اور سیاسی کردار پر پولیس کی بربریت کو بڑی حد تک محدود کیا گیا یا کیمرے اور صحافیوں کی دسترس سے ان واقعات کو دور کیا گیا‘ ضیاء الحق کی آمریت میں کوڑے مارے جانے کی سزاؤں اور پیپلز پارٹی کے حامیوں و کارکنان پر بدترین تشدد کی صورت میں معاشرے کے اندر احساس محرومی اور احساس زیاں نے از سر نو بگاڑ کو جنم دیا اور آج تک اس طاقت کے استعمال نے ہمارے سیاسی نظام کو پنپنے نہیں دیا‘ ضیاء الحق کے بعد ایک طرف ان کی سیاسی نرسری اور دوسری طرف بھٹو کی بیٹی‘ ان دونوں کے درمیان سیاسی ٹکراؤ اور کھینچا تانی میں پولیس کا استعمال معاشرے کو بگاڑتا رہا‘چادر چار دیواری کے تقدس پامال ہوتے رہے اور سیاسی فریقین کے علاوہ عوام جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی حامی بنتی اس پر ظلم و ستم کا بازار پولیس کی صورت میں گرم کر دیا جاتا‘ مشرف کا دور آیا اور پولیس کو ایک مرتبہ پھر سیاستدانوں اور ان کے حامیوں کیخلاف کریک ڈاؤن کیلئے استعمال کیا گیا‘ بعد ازاں مشرف نے خود کو لبرل ظاہر کیا مگر تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور سرکردہ رہنماؤں و کارکنوں پر پولیس کے ذریعے زمین تنگ کردی گئی‘ محترمہ بینظیر بھٹو شہید اپنی جلا وطنی سے واپس لوٹی تھیں اور لاہور میں اپنی رہائشگاہ سے احتجاجی مارچ شروع کرنا چاہتی تھیں‘ ان کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر کر گھر پر نظر بند کردیا‘ مشرف کے جانے کے بعد اے آر ڈی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں جنہوں نے میثاق جمہوریت کا معاہدہ بھی کر رکھا تھا‘انہوں نے کسی قسم کا کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور پولیس استعمال ہوتی رہی البتہ معاشرے میں میڈیا کی فراوانی اور آئی ٹی کی افزائش کے باعث ہمارے حکمرانوں کو اپنے پولیس اسٹیٹ کے کلچر کو بڑی حد تک تبدیل کرنا پڑا یا یوں کہہ لیں خفیہ رکھنا پڑا، تاہم سیاسی مخالفین کیخلاف پولیس کا استعمال بار بار سامنے آتا رہتا ہے، جیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن سامنے آیا‘ کئی بے گناہ قتل ہوئے اور کسی کو آج تک انصاف فراہم کرنے میں ہمارا نظام ناکام ہے بہرحال گزشتہ دو اڑھائی سالوں سے وطن عزیز کو جس طرح پولیس اسٹیٹ کے طور پر چلایا جارہا ہے؛ وہ انتہائی افسوسناک ہے‘جس کے باعث ہمارے معاشرے میں چاہے میڈیا یا عوامی دباؤ کے نتیجہ میں جو چند تبدیلیاں آئیں تھیں؛ وہ بھی پامال کردی گئیں‘ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت گئی‘ 25 مئی 2022 کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر جس طرح پولیس نے تشدد کیا‘خواتین کا لحاظ تک نہ رکھا گیا, اس پر اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہان نے تب کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خاں کو ایسا تشدد کروانے اور گھروں پر چادر چار دیواری کے تقدس کو پامال کروانے کی آندھی چلانے پر "حکیم" رانا ثناء اللہ خاں کا خطاب دیا‘جس کا نتیجہ آج یہ نکل چکا ہے کہ ایک طرف سانحہ بہاولپور رونما ہوا‘ خواجہ سرا پولیس تھانے پر حملہ کرنے اور پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے پر تل گئے، کسانوں پر ڈنڈے برسائے گئے یہی کردار وطن عزیز کو پولیس اسٹیٹ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔