پچھلی نشست میں قارئین کے سامنے پانچ جولائی 1977ء کے حوالے سے تین سوال رکھے تھے کہ ان کے جواب ابھی ملنا باقی ہیں۔ پہلا یہ کہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء کیوں لگایا؟ دوسرا یہ سوال کہ کیا چار اور پانچ جولائی کی درمیانی شب حکومت اور پی این اے کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کا پی این اے کے بعض لیڈر بعد میں دعویٰ کرتے رہے ؟تیسرا یہ کہ کیا بھٹو صاحب جنرل ضیا کی جگہ نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنا چاہتے تھے۔ ایک چوتھا ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا پی این اے کی تحریک امریکہ سپانسرڈ تھی، جیسا کہ بھٹو صاحب دعویٰ کیا کرتے تھے ؟ پہلے تیسرے سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔ مولانا کوثرنیازی نے اپنی کتاب’’ اور لائن کٹ گئی ‘‘ان جیسے کئی سوالات کا اپنی معلومات اور فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس پر مگر بعد میں آئیں گے۔ پہلے جنرل( ر) کے ایم عارف کی کتاب ضیا الحق کے ساتھ (ورکنگ ودھ ضیا )کو دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس متعلقہ افراد سے یہ سوال پوچھنے کے زیادہ بہتر مواقع موجود تھے۔ کے ایم عارف لکھتے ہیں کہ میں نے جنرل غلام جیلانی سے جو تب ڈی جی آئی ایس آئی تھے، ان سے پوچھا کہ کیا حالات سے عاجز آ کر بھٹو نے کبھی ضیا کو الگ کرنے کا بھی سوچاتھا؟اس سوال کے جواب میں جنرل جیلانی نے کہا،’’اگر مسٹر بھٹو نے اپنا کوئی نیا چیف آف آرمی سٹاف تلاش کر بھی لیا تھا (اور اس کے لئے شاید ایک امیدوار کے ان کے اردگرد منڈلانے کی رپورٹیں موجود تھیں )تب بھی حکومت مخالف پی این اے کی اس تحریک کے دوران ان کی پوزیشن اتنی کمزور ہوچکی تھی اور وہ اس قدر الگ تھلگ ہوچکے تھے کہ ایک نیا محاذ کھولنے کی نہیں سوچ سکتے تھے ۔ وہ اتنے ذہین ضرور تھے اور کور کمانڈروں سے ملاقاتوں کے دوران ان کو فوج کی وحدت ِکمان کا اندازہ ہوچکا تھا لیکن باایں ہمہ اگر ان میں تھوڑا بہت دم خم باقی تھا یا بساط سیاست کی چالوں کے درست ادراک کا کوئی بھی شائبہ ان میں باقی رہ گیا تھا تو ایکشن لینے کا لمحہ تین جولائی کو اس وقت آیا تھا جب ملک کی دونوں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں (جنرل جیلانی اور رائو عبدالرشید)نے ان سے ملاقات کر کے ان پر واضح کر دیا تھا کہ ان کے سر پر مارشل لا کی تلوار لٹک رہی ہے۔انٹیلی جنس کے دونوں سربراہان کو سننے کے بعد مسٹر بھٹو کو جمہوری عمل کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے کم از کم اس رات یا زیادہ سے زیادہ اگلی صبح پی این اے کے لیڈروں کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کر دینے چاہیے تھے ، لیکن افسوس ان کی تقدیر ایک مختلف راستے پر گامزن تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ مسٹر بھٹو اس کا شعور نہ رکھتے تھے اور یہ بھی نہیں تھا کہ آنے والے سانحے کے بارے میں انہیں کسی نے بتایا نہیں تھا۔ انہیں تو ایک سے زیادہ ذرائع کی طرف سے اطلاعات مل رہی تھیں، لیکن میرا خیال ہے کہ ہر حکمران کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ وہی کچھ دیکھتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے اور وہی کچھ سنتا ہے جو سننا چاہتا ہے۔ ‘‘ کے ایم عارف نے اپنی اس کتاب میں جنرل غلام جیلانی سے اپنی تفصیلی گفتگو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جنرل جیلانی نے اپنی یاداشتوں کو کریدتے ہوئے بتایا :’’وسط اپریل ستتر کے بعد سے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کی سربراہی میں ایک کمیٹی پنڈی میںملکی امن وامان کی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے لئے پنڈی میں روزانہ اجلاس منعقد کرتی تھی، جس میں فوج کی نمائندی لیفٹننٹ جنرل فیض علی چشتی کرتے تھے ۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان، پولیس کے سربراہ اور اعلیٰ انتظامی افسران بھی اس میں شامل ہوتے۔ جوں جوں حکومت کی پوزیشن کمزور ہوتی گئی، فیض علی چشتی کے لب ولہجہ میں ایک ایسی تبدیلی آتی گئی جس میں رعب ودبدبہ ، اختیار واعتماد اور عزم وادعا کی کیفیت بڑھتی گئی۔ یہ تبدیلی انٹیلی جنس والوں کی نگاہ سے نہ بچ سکی۔ دو جولائی کے اجلاس کے بعد رائو عبدالرشید جو حال ہی میں آئی بی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے اور خود میں نے اندازہ لگایا تھا کہ فوج کا پیمانہ صبر لبریز ہونے والا ہے اور ایکشن کسی بھی لمحے متوقع ہے۔ تین جولائی کو ہم دونوں اکھٹے وزیراعظم بھٹو کے پاس گئے ۔ انہیں صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنے ان خدشات کا بھی ذکر کیا جو ہمارے تجزیوں اور مشاہدات پر مبنی تھے ۔ہم دونوں کا نقطہ نگاہ سننے کے بعد مسٹر بھٹو نے تمام کورکمانڈروں کو فرداً فرداً ٹیلی فون کیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں سب سے پوچھا کہ آیا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور کوئی غیر معمولی واقعہ تو رونما نہیں ہونے والا۔ کور کمانڈروں سے اس بات چیت کے بعد بھی مسٹر بھٹو نے عقل کے ناخن نہ لئے اور یوں سارا معاملہ ختم ہوگیا۔ ‘‘ جنرل جیلانی کے بقول :’’ وزیراعظم نے خود کو اس قدر کمزور اور تنہا کر لیا تھا کہ وہ کوئی سخت ایکشن نہیں لے سکتے تھے۔ وہ معاملات ٹالتے رہے حتیٰ کہ بہت دیر ہوگئی ۔ آٹھ مارچ ستتر کورات کے اڑھائی بجے بھٹو صاحب نے مجھ سے پوچھا تو میں نے انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ خو دپہل کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ ایک سیاسی تصفیے کے لئے مذاکرات کریں ، خواہ اس کے لئے انہیں نئے سرے سے انتخابات ہی کیوں نہ کرانے پڑیں ۔ انیس مارچ کو میں نے پھر وزیراعظم بھٹو کی خدمت میں ایک پیپر پیش کیا جس کا لب لباب یہی تھا کہ بھٹو کے پاس ازسرنو الیکشن کرانے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ تاہم ان کے آس پاس بہت سے ایسے حواری، جی حضورئیے، خوشامدی اور عزیز واقارب اکھٹے ہوچکے تھے جو ان کو ایک دوسری قسم کا مشورہ دیتے تھے۔ ’’بعض اوقات بھٹوصاحب پر جب استغراق کی کیفیت طاری ہوتی تو وہ پی این اے کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد کی کیفیت کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ’’یونانی المیہ ‘‘ سے کم قرار نہ دیتے ۔کئی بار مسٹر بھٹو کٹیلے لہجے میں کہا کرتے کہ مجھے بھی ان ملائوںکے ساتھ وہی کرنا چاہیے تھا جو شاہ امان اللہ اور کمال اتاترک نے کیا تھا۔بھٹو اتنے متکبر اور مغرور تھے کہ اپنی حیثیت سے نیچے آ کر شکست تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے اور اپنے اقتدار کو کسی بھی طور کم ہوتے دیکھنا ان کو گوارہ نہیں تھا۔ وہ ادھر ادھر کی ہانکتے رہے، ٹال مٹول سے کام لیتے رہے، اس عمل میں بہت سا وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا، زمین ان کے پائوں کے نیچے سے سرک گئی ۔ مذاکرات اور افہام وتفہیم کے ذریعے کوئی سیاسی حل تلاش نہ کیا۔ انہوں نے اپنی تیرہ بختیوں کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھیرایا اور الزام لگایا کہ اس نے پاکستان میں بے حساب دولت پھیلا دی ہے۔ ‘‘ کے ایم عارف کی کتاب کی اسی باب میں پی این اے کی تحریک کے پیچھے امریکی فیکٹر ہونے کے حوالے سے بھی بعض نکات رقم کئے گئے ۔ کے ایم عارف جنرل جیلانی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جیلانی کے بیان کے مطابق مسٹر بھٹو اور ان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عزیز احمد نے آئی ایس آئی اور آئی بی پر خاصا دبائو ڈالا کہ پی این اے کی تحریک کے لئے جو مبینہ بے تہاشا غیر ملکی امداد آ رہی ہے، اس کے ٹھوس شواہد مہیا کئے جائیں۔ دونوں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے مسٹر عزیز احمد پر واضح کیا کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے بعض مالی طور پر مستحکم گروہ دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں تاکہ پی این اے کی تحریک رواں دواں رہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر آئی بی نے مسٹر عزیز احمد کو چیلنج کیا کہ اگر وہ اس غیر ملکی امداد کے سورس کی نشاندہی کر سکیں یا اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شہادت مہیا کر سکیں تو اطلاع دینے والے کو پچیس لاکھ روپے تک نقد انعام دیا جائے گا۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں مزید کوئی بات سننے میں نہیں آئی ۔ کے ایم عارف نے بھٹو کے ایک مشیر یوسف بچ کے حوالے سے بتایا کہ مسٹر بچ کو بھٹو کے آخری دنوں میں پاکستان سے سبک دوش ہو کر جانے والے امریکی سفیر ہنری بائی روڈ نے بتایا کہ امریکہ کو مسٹر بھٹو کے زوال سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان فریڈرک برائون نے اتنیس اپریل ستتر کو ایک بیان میں کہا کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہے، امریکہ کی خواہش ہے اور نہ اس کی وجہ ہے کہ وزیراعظم بھٹو کے مخالفین کی حمایت کی جائے اور نہ ہی ہم نے پاکستان کے سیاسی عمل میں کوئی مداخلت کی ہے۔ (یہ سیریز بنیادی طور پرپانچ جولائی ستتر کے مارشل لا اور اس کی وجوہات کے حوالے سے ہے، لیکن اگر کوئی مسٹر بھٹو کے زوال اور اقتدار سے ہٹانے جانے والی غلطیوں میں عمران خان کے طرز عمل سے مماثلت ڈھونڈنا چاہے تو کم از کم مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ تاریخ کاایک سفاک اصول یہ ہے کہ بہت بار یہ اپنا دائرہ پھر سے مکمل کرتی ہے، جسے لوگ تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانا کہتے ہیں۔) (جاری ہے)