ابھی نیٹ فلیکس کا جادو نہیں اترا تھا کہ پی ٹی وی والوں نے پی ٹی وی فلیکس کا اجرا کر دیا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے گزرے وقت کو دوبارہ دیکھنا۔Flex کے معنی بھی جھکاؤ اور مڑنے کے ہیں۔شاید اسی لیے پی ٹی وی فلیکس اپنے زریں دور کی طرف مڑا ہے اور پی ٹی وی کے عاشقوں کے لیے مشہور زمانہ پروگرامز دکھانے کا بندوبست کیا ہے۔اس فلیکس میں وہ ڈرامے دستیاب ہیں، جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کا نام امر کیا تھا۔جیسے اب ہمارے انٹرٹینمنٹ چینلز بھارتی ڈراموں کی نقل اتارتے ہیں تب یہ رواج نہیں تھا۔پی ٹی وی کا ایک خاص اسلوب تھا جو اب خال خال نظر آتا ہے۔اب بھی بہت عمدہ ڈرامے لکھے بھی جا رہے ہیں اور دکھائے بھی جا رہے ہیں مگر پہلا عشق کب کوئی بھلا سکتا ہے۔ والد صاحب کے حکم کے مطابق گھر میں ریڈیو تک رکھنا منع تھا۔ٹی وی کا شوق کیسے پورا ہونا تھا۔والد صاحب کو فلمی گانے اور لاؤڈ سپیکرز پر اونچی آواز سخت کوفت میں مبتلا کرتی تھی۔ٹی وی کے اجرا کے دس بارہ سال بعد گھر میں ٹی وی آیا مگر وہ چند پروگرام دیکھنے پر ہی قناعت کرتے تھے۔ جب صبح دفتر پہنچتے تو اخبار میز پر پڑا ہوتا۔ اخبار میں اس دن کے ٹی وی پروگرام کی تفصیل دیکھتے شام کو ٹی وی آن کر کے اس دن کے پروگراموں کی تفصیل سنتے تب چین آتا۔پی ٹی وی کا رات گئے طویل دوانیہ کا ڈرامہ اور دور براعظموں میں پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ میچ کھیلتے ہمارے وقت کی ایک بڑی عیاشی تھی۔خوش قسمتی سے طویل دورانیے کے ڈرامے ویک اینڈ پر دکھائے جاتے تھے۔اگلے دن فرصت بھی ہوتی تھی اور دفتر سے چھٹی بھی جی بھر کر ڈرامہ دیکھتے اور رات گئے دیر سے سو جاتے۔تب دیر گئے کا مطلب رات کے دس گیارہ بجنے ہی تھے۔اب نئی نسل نے رات گئے کا مفہوم بدل دیا ہے۔ادھر تہجد کا وقت ہوا بزرگ والدین (اب والدین تو جوان ہی ہیں) دادا اور دادی اماں وضو کے لیے اٹھتے ہیں ادھر نوجوان نسل کی کچن میں کھسر پھسر کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں گویا پیٹ پوجا کا انتظام ہو رہا ہوتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ باہر فوڈ پانڈا والا کھڑا ہے۔ڈلیوری کے بعد اس کے موٹر سائیکل کے سٹارٹ ہونے کی آواز آتی ہے۔ہمارے وقتوں میں اس وقت بڑے بوڑھوں کے اٹھنے کا وقت تھا اب وہ وقت نئی نسل کے سونے کا ہے۔رات گئے کبھی بھوک لگتی تو ماں کے کچن کی گھنٹوں تلاشی کے بعد کچھ نہیں ملتا تھا۔آپ کی قسمت اچھی ہوتی تو اس وقت ایک گلاس دودھ مل جاتا۔کوئی باسی روٹی کا بچا کھچا ٹکڑا اس دودھ کے ساتھ کھایا جاتا۔ کچھ ڈرامے پرائم ٹایم کے ایسے تھے جو اب بھی یاد آتے ہیں تو جی میں امنگیں سی جاگ جاتی ہیں۔ الف نون میں کمال رضوی اور فلم سٹار ننھا کی جوڑی تو ہیرو ہیروئن کی جوڑی سے زیادہ ہٹ تھی۔ننھا محض بیالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ان کے ساتھی کمال احمد رضوی تو باقاعدہ ادیب تھے ایک سو پچاس کتب کا بدیسی زبانوں سے ترجمہ کیا۔دوستووسکی کے ناول جرم اور سزا کا ترجمہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ سے مایوس ہو کر چھوڑ دیا۔الف نون کا پہلا پروگرام ٹی وی کے اجرا کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔کمال رضوی جب لاہور شفٹ ہو گئے تو لیکشمی مینن میں گھر لیا اور منٹو اور آغا امیر حسین کے ہمسائے بن گئے۔شام کو ریگل میں کلاسیک پر ضرور رکتے۔البتہ دوستی ان کی منٹو سے تھی۔ نیلام گھر جو بعد میں ان کے نام پر طارق عزیز شو ہو گیا ہماری والدہ کا پسندیدہ پروگرام تھا دیکھتی آنکھو سنتے کانو آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے کے الفاظ سنتے ہی وہ بھی ہمارے ساتھ آ بیٹھتے اور آخر میں پاکستان زندہ باد کے فلگ شگاف نعرے کے بعد آہستہ سے زندہ باد کہتیں اور اپنے بیڈ پر چلی جاتیں۔البتہ ابا جی زیادہ تر الہدی پروگرام میں ڈاکٹر اسرار احمد کی گفتگو سنتے بعد میں طاہر القادری کے قرآن لکچر بھی شوق سے سنتے۔ کچھ ہلکے پھلکے ڈرامے پانچ چھ اور سات بجے لگتے تھے۔ان میں ایک پنجابی ڈرامہ مستنصر حسین تارڑ کا لکھا ہوتا تھا۔یہ وسیم عباس کی پہلی اپیرنس تھی اس میں ہیروئن شکیلہ قریشی تھیں جو بعد عمر شریف کی بیوی بنیں۔ شام کے قریب ہی شہرہ آفاق پروگرام کسوٹی ہوتا جس میں افتخار عارف اور عبیداللہ بیگ بیس بائیس سوالوں میں مطلوبہ جواب تک پہنچ جاتے تھے۔ایک آدھ بار کے علاوہ وہ ہمیشہ درست جواب فراہم کر دیتے تھے۔تب یہ دونوں حضرات بیس پچیس سال کے تھے مگر ایسا مطالعہ اور حافظہ خدا کا تحفہ ہے۔ ایک ڈرامہ خواجہ اینڈ سنز تھا۔اس میں ایک کرادر ایم شریف کا تھا جو کسی ادبی ادارے کا سربراہ تھا اور ڈرامے میں اس کا نام اللہ دتہ اداس تھا۔اداس صاحب کے ادارے نے ایک کتاب شائع کی چونکہ اداس صاحب اس ادارے کے سربراہ تھے اور شعر کا شغل بھی فرماتے ہیں۔لہذا انہوں نے لکھوایا کہ اگرچہ غالب اور اقبال بھی اہم شاعر ہیں مگر اللہ دتہ اداس بعض دفعہ ان سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔خواجہ اینڈ سنز ہمیں ایم شریف سے کہلوائے گئے اسی طرح کے مکالموں کی وجہ سے پسند تھا۔ ہمارے پسندیدہ پروگراموں میں ایک اندھیرا اجالا تھا، جس میں قوی خان کے کردار کے علاوہ جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ کے بھی یادگار کردار تھے۔عرفان کھوسٹ تو اب بھی جہاں جائیں دریکٹ حوالدار بن جاتے ہیں۔ان کے ساتھ ایک معاون اداکار کاکا سپاہی بھی ہوتا تھا۔اندھیرا اجالا کی ایک قسط میں ڈریکٹ حوالدار کے پاس ایک سائل آتا ہے اور آ کر کہتا ہے میں لٹ گیا میں مارا گیا میری عمر بھر کی جمع پونجی اوئے میریا ربا۔میرا لاکھوں کا نقصان ہو گیا۔ڈریکٹ حوالدار پوچھتا ہے لاکھوں کا نقصان؟ وہ آدمی کہتا ہے کروڑوں کا جناب کروڑوں کا۔کاکا سپاہی کہتا ہے کروڑوں کا وہ آدمی کہتا ہے اربوں کا جی اربوں کا۔تب سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اس کی آؤ بھگت کے لیے کوئی اسے کرسی پیش کرتا ہے کوئی بوتل لے کر آتا ہے۔یہ قسط ہم نے لہوری یار طارق صفیر (حال مقیم کراچی) اور دیگر دوستوں کے ساتھ ایک چھڑوں کے ہوٹل میں دیکھ رہے تھے۔ سب نے سائل کو پہچان کر فلک شگاف نعرہ لگایا شاعر ای اوئے۔