شاعر نے کہا تھا کہ … ذِکر جب ،چھڑ گیا ، قیامت کا ! بات پہنچی، تری جوانی تک! معزز قارئین!بات پینے کے صاف پانی سے شروع ہُوئی تھی ،پھر کالا باغ ؔ ڈیم تک پہنچی اور پھر ’’ دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیمز‘‘ تک ۔ اِس کہانی کے "Hero" تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ہی ہیں لیکن ، کئی ( فلمی ) کہانیوں میں "Side Heroes" ۔بھی تو ہوتے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے بڑی فراخدلی سے تسلیم کرلیا ہے کہ ’’ ڈیمز بنانا تو ہم سیاستدانوں کا کام تھا لیکن چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ہم سب پر سبقت لے گئے ‘‘۔ تبھی تو کہا گیا ہے کہ … اِیں سعادت بزور ِباز و ، نیست! تانہ بخشد ، خُدائے بخشندہ! وزیراعظم عمران خان نے "Dams" بنانے کو جہادؔ کا نام دِیا، اِس پر مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت جہاد اور شہادت کے مطلوب ، پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ، پرسوں ( 10 ستمبر کو ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کر کے اُنہیں اپنی اور اپنی پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں کی طرف سے ، ایک ارب 59 لاکھ روپے کا چیک پیش کِیا۔ صدرِ مملکت جناب عارف علوی ، وزیراعظم عمران خان ، تمام گورنرز ، وزرائے اعلیٰ ، وفاقی اور صوبائی وزراء اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ ، ہر طبقہ کے لوگوں کی طرف سے ڈیمز ؔکی تعمیر کے لئے عطیات دئیے جا رہے ہیں ۔ بیرونِ ملک مقیم ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان ‘‘ کی طرف سے بھی ۔ 2011ء میں ،برطانیہ کے سائنسی جریدہ ۔ ’’The Nature‘‘ نے لکھا تھا کہ ۔ ’’ اگر بھارت نے پاکستان کے ساتھ ۔’’Indus Waters Treaty‘‘ ۔ (سندھ طاس معاہدے )‘ کے تحت پاکستان کے حِصّے میں آنے والے دریائوں۔سندھ ، چناب اور جہلم پر ۔’’Dams‘‘۔ ( پانی کے بہائو کو روکنے اور ذخیرہ کرنے کے لئے باندھے جانے والے بندوںؔ) کی تعمیر جاری رکھی تو، پاکستان 2020ء تک ریگستان بن جائے گا‘‘۔ اُس سے پہلے امریکی خلائی ادارہ ناسا نے پیش گوئی کی تھی کہ ’’ پاکستان اور بھارت میں آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی!‘‘۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہُوئی تو اُنہوں نے عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کِیا تھا ( جو پورا نہیں کِیا ) لیکن ، جناب بھٹو نے عوام سے ، پینے کا صاف پانی اور خالص دودھ فراہم کرنے کا تو وعدہ نہیں کِیا تھا ؟۔ دراصل بھٹو صاحب کے دَور تک ، عوام نے نہروں ، تالابوں ، کنوئوں اور جوہڑوں کے گندے پانی کی شکایت شروع نہیں کی تھی؟ بالائی طبقہ کے لوگ تو ابتداء ہی سے "Mineral Water" خرید (پی) کر ، خُوش و خرم ہیں لیکن، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ، 60 فی صد لوگوں کا کیا؟ ۔ وہ صبر و شکر سے گندا پانی پیتے تھے ، مُہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتے تھے ۔ کبھی انہیں ہسپتالوں میں داخلہ مِل جاتا ہے اور کبھی نہیں ۔ معزز قارئین! ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہُوا کہ 35 سال تک ، برطانیہ میں رہائش پذیر اورسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو سے مسلسل تین بار "House of Commons" کے منتخب رُکن (ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ) چودھری محمد سرور جب ، شریف برادران کی دعوت پر پنجاب کے گورنر کا منصب سنبھالا تو، اُنہوں نے برطانیہ میں مقیم ’’فرزندان و دُختران پاکستان‘‘ کے تعاون سے پنجاب کے تعلیم اور رفاہی اداروں میں "Solar Water Filtration Plants" لگوائے۔ تو پاکستان کے کئی مخیر حضرات میں بھی اِسی طرح کا جذبہ پیدا ہُوا لیکن، پاکستان کے دوسرے صوبوں کے کسی بھی گورنر نے اِس کارِ خیر ؔکی کی تقلید نہیں کی۔ 18 دسمبر 2013ء کو جب، گورنر چودھری محمد سرور نے دربار حضرت داتا گنج بخشؒ میں ’’ سولر واٹر فلٹریشن پلانٹ‘‘ کا افتتاح کِیا تو، اُن کے ساتھ مَیں اور 1981ء سے گلاسگو کے میرے دوست ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی بھی تھے ۔ تقریب کے بعد مجھے پراجیکٹ ڈائریکٹر جناب وحید اُلدّین اور شریک ڈائریکٹر رانا اکبر علی نے بتایا کہ ’’ پنجاب میں اکثر جگہوں پر پانی ’’سنکھیا زدہ ‘‘ ہوگیا ہے اور بہت گہرائی میں چلا گیا ہے‘‘ ۔( سنکھیاایک زہریلے پتھر کو کہتے ہیں ) ۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ، پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں زیادہ مریض زہر آلو اور گندا پانی پی کر پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو کر داخل ہوتے ہیں !‘‘۔ 29 جنوری 2015ء کو چودھری محمد سرور مستعفی ہوگئے تو، نئے گورنر ملک محمد رفیق رجوانہ کو ، پینے کے صاف پانی کے منصوبے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ البتہ 19 ستمبر 2016ء کو (اُن دِنوں ) وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اعلان کِیا کہ ’’ مَیں نے جرمنی کی "Water Sector" ایک معروف کمپنی کے تعاون سے ’’ خادمِ اعلیٰ صاف پروگرام‘‘ کے تحت عام آدمی کے لئے اُسی طرح کے پانی کا انتظام کردِیا ہے جو، اشرافیہ کے لوگ پیتے ہیں ‘‘۔ اِس پر میرے دوست’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے خُوشی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ … قِصّہ بہت ہی اچھّا ، کیا خُوب ہے کہانی ! ’’ مجھے بھا گئی ہے ، خادمِ اعلیٰ کی خُوش بیانی! اب تو بہت ہی اچھی، گُزرے گی زندگانی! عام آدمی پیئے گا ، اشرافِیہ کا پانی ! معزز قارئین!۔ پھر کیا ہُوا؟ ۔ جنوری 2018ء کے اوائل میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحقیق کی تو، پتہ چلا کہ ’’نہ صِرف پنجاب بلکہ صوبہ سندھ میں بھی عام لوگوں کو پینے کا زہر آلود پانی ملتا ہے اور ملک بھر میں مختلف کمپنیوں کا جو دودھ فروخت ہوتا ہے وہ، مضر صحت ہے ‘‘۔ 14 جنوری 2018ء کو چیف جسٹس صاحب نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’ چار ہفتوں میں دودھ کے ڈبوں پر لکھا جائے کہ یہ "Tea Whitener" ہے، دودھ نہیں ‘‘۔ فروری 2018ء کے اوائل میں چیف جسٹس صاحب نے سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد مراد علی شاہ کو بھی عدالت میں طلب کرلِیا اور 10 فروری کو لاہور میں ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُلحسن اور جسٹس منظور احمد ملک پرمشتمل تین رُکنی بنچ میں از خود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتی معاون عائشہ احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’’ ہر روز 54 کروڑ گیلن گندا پانی دریائے راوی میں پھینکا جاتا ہے ‘‘۔ اِس پر 13 فروری کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ راوی پِیوے گندا پانی۔ خادمِ اعلیٰ ۔ دلبر جانی‘‘۔ 7 جون 2018ء کو چیف جسٹس صاحب ہی کی سربراہی میں اِسی بنچ نے ، کراچی کے بیرسٹر ظفر اللہ کی 2013ء میں دائر کی گئی درخواست کی سماعت ہُوئی جس، میں کہا گیا تھا کہ ’’ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ریفرنڈم کرایا جائے اور اُس کا نام ’’ بے نظیر ڈیم‘‘ رکھا جائے !‘‘ ۔ سماعت ملتوی ہوگئی تھی۔ 9 جون 2018ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ کالا باغ ڈیم ؔ۔ کی تعمیر پر ۔ ریفرنڈمؔ ؟ ‘‘ ۔ مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر ریفرنڈم کرانے پر تو ، مَیں یکم دسمبر 2012ء کو ہی اپنے کالم میں مطالبہ کر چکاہُوں ؟‘‘ ۔ بعد ازاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر بعض چھوٹی سیاسی جماعتوں کی ناراضی کے بجائے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے "Diamer' Bhasha and Mohmand Dams" کی تعمیر کا عَلم بلند کردِیا لیکن، وزیراعظم جناب عمران خان نے تو، یہ بھی کہا ہے کہ ’’یہ ڈیمز ؔپانچ سال میں مکمل ہوں گے! ‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ تو، خالصتاً "Technical" معاملہ ہے ۔پھر کیوں نہ ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ، اندرون اور بیرون ملک ، محب وطن ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان‘‘ کی امداد سے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے تجربے کی روشنی میں ، جنابِ وزیراعظم عمران خان کے نامزد کردہ دوسرے صوبوں کے گورنر صاحبان بھی کم وسائل عوام کو ’’سنکھیا زدہ‘‘ پانی پینے سے بچانے کے لئے اپنے اپنے صوبے میں "Solar Water Filtration Plants" لگانے کا اہتمام کریں ؟۔