تین روز قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ ہوا۔پی ٹی ایم کی قیادت نے جو لہجہ اختیار کیا اسے سکیورٹی سیاست کے ماہرین ٹی ٹی پی سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔جس طرح ہم لکھنے والے کسی مضمون کا مواد دیکھ کر اس کے کنٹینٹ پر اپنی رائے دے سکتے ہیں اسی طرح سیاسی سرگرمیوں اور جلسوں کا کنٹینٹ بتاتا ہے کہ وہ جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ ہے یا تشدد اور ریاست مخالف سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ذاتی طور پر میں علاقائی اور نسلی بنیاد پر سیاست کے خلاف ہوں۔میری طرح اگر چودہ کروڑ پنجابی یہ کہہ کر ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کہ ہم نے پنجابی تحفظ موومنٹ چلانی ہے تو کیا یہ باقی قومیتوں کے لئے پریشانی کا باعث نہ ہوگا؟ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کے پاس دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کے دکھوں کی گٹھڑی ہے جو پنجاب اور سندھ کے لوگوں کر سر پر نہیں۔یہ عمومی تاثر ہے جو حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو مالی اور جانی نقصان اٹھایا وہ باقی صوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔پنجاب اور سندھ میں دہشت گردی کے باوجود حالات اس لئے بہتر نظر آتے رہے کہ یہاں کے سیاسی و سماجی قائدین نے قومی مسائل کے سلسلے میں عام آدمی کو آگاہی دنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا نہیں کی۔ پی ٹی ایم کے جلسے پر کئی سوال اٹھتے ہیں پہلا یہ کہ اس جلسے کو ایسے مقام پر انعقاد کی اجازت کن حالت میں دی گئی جہاں افغان پناہ گزینوں کی ناجائز آبادی تھی۔اسلام آباد میں رہنے والے پختون الگ تھلگ رہے ،یہ پی ٹی ایم کے حامی ہوتے تو رد عمل کچھ مختلف ہوتا ۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم اور ٹی ٹی پی ایک دوسرے کو پاس دے رہی ہیں۔افغان طالبان کی جانب سے پاکستان میں حملوں کی ممانعت کے بعد ایک نئے طریقے سے دونوں تنظیمیں منصوبہ ترتیب دے رہی ہیں۔اشتعال پیدا کرنے اور اپنی سرگرمیوں کو جائز قرار دینے کے لئے انسانی و جمہوری حقوق اور ریاست کی سخت گیری کا واویلہ کیا جا رہا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ داد رسی نہیں ہو رہی ۔ کیایہ محض ایک اتفاق ہے کہ جمعہ کو پی ٹی ایم اسلام آباد میں غیر قانونی افغانیوں کو جمع کر کے تقریریں کر رہی تھی اور دنگا فساد کر رہی تھی جبکہ دوسری طرف اگلے ہی دن ٹی ٹی پی افغانی نژاد دہشت گردوں کو استعمال کر کے معصوم قبائلی مزدوروں کو شہید کر رہی تھی، وزیرستان کے علاقے شوال میں کام کرنے والے یہ مزدور ملک کی تعمیر میں حصہ لے رہے تھے ۔ ٹی ٹی پی نے دن کی روشنی میں اس واردات میں معصوم لوگوں کا خون بہایا، جبکہ رات کی تاریکی میں پی ٹی ایم کے لوگ وہاں غم زدہ خاندانوں کے پاس جا کر اور سوشل میڈیا پر ریاست مخالف بیانیہ پھیلانے میں مصروفِ ہیں ۔سوشل میڈیا پر ریاست و سیکورٹی فورسز کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس سارے خون خرابے میں ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم کا مقصد صرف اور صرف قبائلی علاقوں میں غیر قانونی افغانیوں کو استعمال کر کے انتشار اور امن و امان کی صورتِ حال کو خراب کرنا ہے تاکہ وہاں پر ترقیاتی عمل کو روکا جا سکے ۔کے پی کے میں انضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں، تجارتی منڈیاں قائم ہورہی ہیں ،روزگار، تعلیم و صحت کے مواقع جنم لے رہے ہیں۔ان علاقوں کی صدیوں کی محرومیاں دور ہونے کی امید ابھری ہے۔یہاں امن آگیا تو کئی غیر قانونی کام بند ہو جائیں گے،عسکریت پسندی ختم ہو سکے گی۔ جو قوتیں ایسا نہیں چاہتیں وہ یہاں اشتعال پیدا کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم فکری طور پر افغان پس منظر رکھتی ہیں ۔دونوں نے ریاست پاکستان کے متعلق ملتے جلتے مفروضے پال رکھے ہیں ۔ان مفروضوں میں کہا جاتا ہے کہ ’’ افغانستان میں ہلاکتوں اور تباہی کی اصل ذمہ دار ریاست پاکستان ہے۔ پاکستان کی وجہ سے افغانستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کا ضلع اٹک تک کا علاقہ افغانستان کا ہے۔ پاکستان میں پشتون پنجابیوں کے غلام ہیں اور افغانستان کے پشتون کی غلامی سے رہائی کے منتظر ہیں۔ پاکستان کے وہ پشتون جو اختلاف کرتے ہیں وہ احمق ہیں یا پشتون بھی نہیں، وہ پختون خواہ میں آباد پنجابی ہیں جنہوں نے پشتون زبان سیکھی ہے، جسے وہ اب لر اور بر کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ وقت آنے پر ان نکات کے مخالف تمام پشتونوں کو پنجاب میں دھکیل دیا جائے گا،خاص طور پر اگر وہ لر اور بر (افغان پشتون علاقہ اور پاکستان کا پشتون علاقہ )کے دوبارہ اتحاد کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ لر میں رہنے والی بڑی غیر پشتون اقلیتیں افغانستان کے ساتھ اتحاد کی اتنی ہی مخالف ہو سکتی ہیں جتنا کہ 'گل خانوں' اور 'پنجابی آباد کاروں' کی۔ تمام افغان بادشاہ، خاص طور پر افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی اور صدور (صدر حامد کرزئی کے ممکنہ استثناء کے ساتھ) ہمارے ہیرو ہیں اور انہوں نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی، یا دوسری صورت میں کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اٹلان کے جو لوگ کامیاب نہیں ہو سکے وہ غیر ملکی سازشوں کی وجہ سے ناکام تھے۔ افغان ایک بہترین قوم ہیں، دنیا بھر میں ثقافت، بہادری اور سرزمین سے محبت کے حوالے سے نمایاںہیں اور دنیا کو ان سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ افغانستان پر کبھی غیر ملکی طاقتوں کا قبضہ نہیں رہا۔‘‘ یہ مفروضے پاکستان میں دہرا کر یہاں کے لوگوں کو افغانستان سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔افغان پشتونوں کو مقامی پشتونوں سے اعلیٰ قرار دیا جاتا ہے۔ایسا کہنے والے یہ بھی فراموش کر دیتے ہیں کہ پاکستان نے افغانوں کو بچانے کے لئے کیا کیا قربانیں دیں۔ نیشنل ایکشن پلان کی طرح ریاست پاکستان کو ایک ایسا انسدادی منصوبہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ایک طرف پشتون آبادی کی جائز شکایات دور کرنے میں مدد دے اور دوسری طرف سماجی و سلامتی سے متعلق مسائل پیدا کرنے والوں سے نمٹنے میں مدد دے سکے۔