ایک یونانی کہاوت ہے کہ پیاز کاٹنے والے سے زیادہ اگر خریدنے والے کو رونا پڑے تو سمجھیں ریاست ناکام ہو چکی ہے،،، یہ کہاوت اُس صورت میں کہی جاتی ہے جب آپ انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پریا بطور قوم ناکام ہو چکے ہوں،بطور قوم ناکام اس لیے کہ اس وقت ملک بھر میں کوئی بھی ادارہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا،،، ہر کوئی ایک دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہا ہے معیشت کی تباہی ان پر ڈالی جارہی ہے جنہیں76سالوں میں سے صرف تین ساڑھے تین ساڑھے زیادہ حکومت نہیںملی، عدلیہ کہتی ہے کہ وہ کامیاب اُس وقت ہوگی جب پولیس اپنا کام ٹھیک کرے گی، جبکہ پولیس کہتی ہے کہ ہم تو ٹھیک ہیں مگر سیاستدانوں کے اداروں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں۔ ہمارا حال اس وقت دنیا بھر میں معاشی طور پر 105ویں نمبر پرہے،عدلیہ کے لحاظ سے ہم 144ویں نمبر پر اور کرپشن میں ہم 142ویں نمبر پر موجود ہیں۔ خیر ہمارا یہ آج کاموضوع تو نہیں مگر بات شروع ہوئی ریاست کی ناکامی پر تو پھر تمام چیزیں ذہن میں آگئیں۔ انہی ناکامیوں میں ایک ناکامی ملک میں امن و امان کے مسائل ہیں، جن کی وجہ سے دنیا بھر کے انویسٹر حضرات یہاں کا رُخ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی ملک کا سربراہ یہاں کا دورہ کرکے ملک کو جلا بخشتا ہے، ان غیر یقینی حالات کے تسلسل کا اندازہ لگائیں کہ گزشتہ ہفتے گلگت سے راولپنڈی جانے والی مسافر بس پر چلاس کے علاقے میں فائرنگ ہوئی ، جس کے نتیجے 8افراد جاں بحق اور 16زخمی ہوگئے۔ اس بس پر پہاڑوں سے 10منٹ تک اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور ڈرائیور کی حاضر دماغی کی وجہ سے بس کھائی میں گرنے سے بچی رہی۔ ورنہ زیادہ تباہی ہوتی۔ ابھی بھی یہ خبر کئی ممالک کی شہہ سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ کیوں کہ ملک کے شمالی علاقہ جات جو اپنے سیاحتی مقامات اور پہاڑی چوٹیوں کی وجہ سے ملک اور بیرون ملک عوامی توجہ کا مرکز رہتے ہیں اور پاکستان کے لیے سیاحتی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں، عام طور پر پُر امن علاقے سمجھے جاتے ہیں تاہم قراقرم ہائی وے پر فائرنگ کے واقعات ملک کے اس حصے کے لیے تشویشناک صورتحال پیدا کر دیتے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی ایک رپورٹ آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں کہ صرف نومبر میں کل 63دہشت گرد حملوں میں 83افراد جاں بحق ہوئے۔گلگت بلتستان کے علاقے میں بس پر فائرنگ کے اس وقوعے نے اس صورتحال کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ ان حادثات میں قصور وار آپ کس کو دیںگے؟ کیا سیاستدان اس میں قصوروار ہیں؟ یا قانون نافذکرنے والے ادارے؟ ایسے علاقوں میں اس طرح کے واقعات جہاں سکیورٹی ہائی الرٹ رہتی ہے وہاں کیسے کوئی منظم حملوں کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟ میرے خیال میں اس ملک میں ایک بات تو طے ہونی چاہیے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی شخص غیر طبعی موت، کسی حادثے کا شکار ، یا کسی دہشت گرد واقعہ میں ہلاک ہوتا ہے تو ہمیں جانچنا چاہیے کہ اس میں قصور کس کا ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے یا کسی اور کا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بس پر جو حملہ ہوا ہے، اُس کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کب لایا جائے گا؟ کیا لایا بھی جائے گا یا نہیں؟ کیا اس حملے کے بعد بھی تمام متعلقہ شخصیات کا صرف بیان داغ دینا کافی ہے؟ جیسے 2017ء میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے میں کام کرنے والی چینی کمپنی کی بس میں دھماکے کے بعد عملے کو چھٹی دے کر تیزی سے جاری کام کو روک دیا گیا ۔قافلہ صبح سات بجے کے بعد اپنے معمول کے مطابق چائنہ غضوبہ کیمپ، برسین سے باہر نکلا۔ ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے، یوں کہیے کہ تقریباً 500 میٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا تو ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی اور ہر جانب مٹی اور دھوئیں کے بادل اٹھنے لگے اور پھر اندھیرا سا چھا گیا۔ہوا بہت تیز تھی اس لیے پہلے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جس بس میں چینی اہلکار موجود تھے سڑک پر دکھائی نہیں دے رہی تھی وہ ہوا میں پلٹا کھا کر کئی فٹ نیچے کھائی میں گری جو دریائے اباسین کا کنارہ ہے۔ اس واقعہ کا پوری دنیا میں شور مچا کہ کس بے دردی سے دہشت گردوں نے پاکستان کے بڑے پراجیکٹس پر حملے کیے ہیں۔ پھر 2021ء میں داسو میں چینی انجینئرز پر حملہ ہوا، دو ماہ تک چینی کمپنیوں نے کام بند کر دیا؟ ہم نے تسلیاں دے کر دوبارہ کام شروع کروایا، اُس کے بعد کیا ہوا؟ دوبارہ حملہ ہوگیا؟ پھر فیری میڈوز پر حملہ ہوا تھا، حالانکہ یہ انٹرنیشنل روٹ ہے،جہاں دنیا بھر کے سیاح جانا پسند کرتے ہیں،یہیں سے ہو کر سیاح نانگا پربت جاتے ہیں، اُس حملے کا بھی آج تک پتہ نہیں چلا کہ ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ اس حملے میں نو غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس اور سکیورٹی حکام کے مطابق حملہ آوروں نے یہ کارروائی نانگا پربت پہاڑی چوٹی کے قریب ایک ہوٹل میں گھس کر کی۔ان میں سے پانچ سیاحوں کا تعلق یوکرائن، چین اور روسی سے تھا۔ وقوعے میں ان سیاحوں کے گائیڈ کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ رات ایک بجے فیری میڈوز میں بونر نالے کے قریب بیس کیمپ پر دہشتگرد آئے اور فائرنگ کرکے 9 غیر ملکی سیاحوں اور 2 پاکستانیوں کو قتل کر دیا۔ سیاحوں کو قتل کرنے والے دہشتگردوں نے سکیورٹی فورسز کی یونیفارم پہنی ہوئی تھیں۔پھر 2018ء میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ دیکھنے کو ملا جب پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین کے قریب ایک خود کش حملے میں سینڈک پراجیکٹ پرکام کرنے والے دو چینی انجنیئروں سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے۔دالبندین شہر کے قریب کسی خود کش حملے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ دالبندین ایران اور افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔چاغی میں تانبے اور سونے کے دو بڑے منصوبے ہیں جن میں سے پراجیکٹ پر چینی انجینیئرز اور دیگر عملہ طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں۔سینڈک کے علاوہ چینی انجینیئرز اور دیگر عملہ بلوچستان میں گوادر پورٹ کے علاوہ کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں دودڑھ کے علاقے میں بھی ایک معدنی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں سیاحت کو تھوڑا بہت فروغ ملنا شروع ہوا ہے تو اس بس پر حملہ سے وہ بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔جس کے ذمہ جو کام ہے وہ کرتا ہی نہیں ہے۔ تبھی ایسے سانحات جنم لیتے ہیں، لہٰذاضروری ہے کہ ملک میں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ جہاں تک ملک کے شمالی علاقہ جات کا تعلق ہے تو وہاں رسائی کا واحد زمینی راستہ شاہراہ قراقرم ہے۔ اگر اس شاہراہ پر دہشت گردی کے واقعات ہونگے تو سی پیک کے اس اہم روٹ پرکیونکر صورتحال کو یقینی بنایا جاسکتا ہے؟