2014ء سے بھارت میں اعلانیہ اور عملی طور پر ہندوراشٹریااکھنڈ بھارت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ 28 مئی 2023ء اتوارکو بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت مکمل ہوئی اورمودی کے ہاتھوںاس کاافتتاح ہوا ۔اس موقع پر بھارت کی پارلیمان کی نئی عمارت کوہندو راشٹر کے نظریہ کی سمبل طورپرپیش کیاگیا ۔بھارتی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ’’اکھنڈ بھارت ‘‘کا ایک نقشہ بھی آویزاں کیا گیا ہے، جس میں پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش کو بھی بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ بنیادی طورپریہ نقشہ آر ایس ایس کی خواہش کردہ نظریاتی ہندو ریاست کی علامت اور توسیع پسندانہ ذہنیت کا ظہار ہے۔بھارتی پارلیمان کی نئی عمار ت میں’’اکھنڈ بھارت‘‘کے نقشے کے آویزاں حکومت پاکستان ،نیپال کے دو سابق وزرائے اعظم اور بنگلہ دیشی لیڈروں کاکہنا ہے کہ یہ نقشہ خطے کو تہہ وبالاکرنے کے بھارتی مقاصد کو طشت ازبام کر رہا ہے۔ مودی نے بھارت کی پارلیمان کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اگرچہ ایک مسلمانوں، سکھوں، مسیحیوں،اوردیگر اقلیتوں میں سے ایک ایک غیرمعروف اوراجنبی نمائندہ مدعوکیا تھا تاکہ وہ اپنے اپنے مذہب کے مطابق بھارتی پارلیمان کی نئی عمارت کے لئے کچھ کلمات پیش کریں ۔ بھارت میں جس طرح اقلیتوں اورکے غیر معروف اوراجنبی نمائندگان کو مدعوکیاگیا تو ا س سے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام دیاگیا کہ ہندوراشٹرمیں غیر ہندو مذاہب کی بس اتنی ہی حیثیت ہوگی جتنی کہ 28 مئی کو نئی پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں تھی یعنی نہ ہونے کے برابراوراجنبی۔ پورے فنکشن سے عیاں تھا کہ وہ حیثیت ہندو رسومات کے مقابلے دوسرے درجے کی نظر آ رہی تھی۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پوری تقریب کھل کر یہ اعلان کر رہی تھی کہ ہندوستان میں سرکاری سطح پر سوائے ہندو عقائد کے باقی سب عقائد دوسرے درجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔تاہم اس موقع پربھارت کے تمام بڑے بڑے مندروں کے پجاریوں جن کی تعداد بیسیوں تھی کومدعو کیاگیا تھااور ان کی موجودگی میںبھارت کی نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کا افتتاح کیا گیا۔ مودی نے ان مندروںکے تمام پجاری کے ہاتھوں سینگول کو قبول کیا اور اسے پارلیمنٹ میں نصب کیا، اس سے دنیا کو یہ بتا دیا گیا کہ ہندوستانی ریاست کا بنیادی کردار اب باقاعدہ ہندو ہو گیا ہے۔مودی نے عملی طور پر اس بات کا اعلان کیاکہ سب جان لیں کہ یہ آرایس ایس اورتمام قوم پرست ہندوتنظیموں کے سپنوں کی تعبیر ہے کہ ہندوراشٹرہندو نظریات پر مبنی ہے، سب باخبر رہیںکہ اب کسی کو ملک کے ہندو راشٹر ہونے میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ 28 مئی2023ء اتوار کو جب بھارت کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے وقت بی جے پی نے بھارت میں سال2024ء تک ہونے والے تمام صوبائی اور پارلیمانی الیکشن کے اپنے اصل ا ہدف کا بھی اعلان کر دیا اورکہاکہ بی جے پی اگلے دس برس کے تمام الیکشن بھارت کی پارلیمنٹ کی عمارت سے شروع ہونے والے ہندو راشٹرکے قیام کے لئے لڑے گی۔ جسے اس نے ’’کلچرل انقلاب ‘‘کا نام دیا ۔ اس کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں تیار رام مندر اور اسی طرح بی جے پی حکومت کے دوران جن مندروں پر کام ہوا، ان کو ہر طرح سے عوامی سطح تک پہنچانا کلچرل انقلاب کے سمبل ہوں گے اور اسی نام پر ووٹ مانگا جائے گا اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ اگلے دس برسوںمیں بھارت ’’جئے شری رام ‘‘کے نعروں میں ڈوب جائے گااورجو اس کی مخالفت کرے گا وہ ہندو دشمن کہلائے جائے گا۔ اکھنڈ بھارت یا اکھنڈ ہندوستان ایک رجوع مکرر سنسکرت اصطلاح ہے جس کے معنی ایک ایسے بھارت کے ہیں جس میں جنوب، مشرق اور وسط ایشیا کی وہ تمام اقوام اور خطے شامل ہیں جو کسی بھی وقت ہندوستانی ریاستوں یا سلطنت کا حصہ رہے تھے یا ہندومت اور بدھ مت کے مذہبی پھیلاؤ کے جغرافیائی دائرے کے زیر اثر رہے تھے۔اس بھارت جسے اکھنڈ بھارت کا نام دیاجا رہا ہے کی سرحدیں افغانستان سے لے کر میانمار اور تبت سے لے کر سری لنکا تک پھیلی ہوئی ہیں۔تقسیم برصغیراورقیام پاکستان سے قبل ہند وستان کا خطہ مختلف ادوار میں بہت سی ریاستی اکائیوں اور سلطنتوں پرمشتمل رہا ہے جن میں اشوک کے زیر نگیں بام عروج پر موریہ سلطنت، مغل سلطنت 1526-1700 اور برطانوی راج پوری لیکن انیسویں صدی میں تقسیم برصغیر نے جنوبی ایشیا کی صورت گری پردور رس اور بہت گہرے نقوش مرتب کئے۔ عصر حاضر میں اکھنڈ بھارت یا اکھنڈ ہندوستان کے قیام کی تحریک ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف سے اٹھائی گئی آواز ہے مثلاً ہندو مہاسبھا، ککبھوسوندی انقلابی فورم، راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشاد، شیو سینا، ہندو سینا، ہندو جناجاگرتی سمیتی اور بھارتیا جنتا پارٹی وغیرہ۔اسی مقصد کے لیے کام کرنے والی ایک اور تنظیم’’ اکھنڈ ہندوستان مورچہ‘‘ نے تو اپنا تنظیمی نام ہی اس اصطلاح کو بنایا ہوا ہے۔سال 2014ء میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے حکمران جماعت بی جے پی کی ماں تنظیم آر ایس ایس اور اس کی حلیف ہندو قوم پرست جماعتوں نے ایک’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا راگ زور شور سے الاپنا شروع کر دیا ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ ایک اشاعتی ادارے نے سال 2020ء میں ایک نقشہ شائع کیا تھا جس میں تمام پڑوسی ممالک پاکستان ،افغانستان،نیپال ،بنگلہ دیش ،میانمار ،سری لنکا اورمالدیپ اور ان کے شہروں کے ہندو نام لکھے گئے تھے۔آر ایس ایس کادعویٰ ہے کہ اسے یقین ہے کہ ایک دن یہ سب خطے بھارت کا حصہ بن جائیں گے اور اکھنڈ بھارت قائم ہو جائے گا۔ اسی فلسفے کے تحت بھارت مسلمانوں کی اکثریتی حامل ریاست جموں وکشمیر کو سرکاری نقشہ جات میں اپنا اٹوٹ انگ بتاتا رہا ہے۔