گزشتہ روز کے کالم میں نامور ادیب، بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب اور ان کی خود نوشت تصنیف شہاب نامہ پر اٹھنے والے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے چند نکات پیش کئے۔ اسی سلسلے میں بعض مزید نکات بھی نذر قارئین ہیں: قدرت اللہ شہاب پرایوب خان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے رائٹرز گلڈ بنانے کا الزام لگایا جاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوب دور کے تین ماہ بعد ہی رائٹرز گلڈ قائم ہوا، اس میں اپنے وقت کے تقریباً تمام بڑے ادیب شامل تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق پہلے اجلاس میں شریک تھے، شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید وقار عظیم، شوکت صدیقی، غلام عباس، اشفاق احمد، احمد راہی، شیخ ایاز، امیر حمزہ شنواری،ناصر کاظمی، منیر نیازی بلکہ قرتہ العین حیدر بھی شامل تھیں، بعد میں قرتہ العین حیدر بھارت چلی گئی تھیں۔ گلڈ میں رائیٹ اور لیفٹ ونگ کی نامور شخصیات شامل تھیں، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی سے لے کر حفیظ جالندھری اور نسیم حجازی تک۔ گلڈ کے بارے میں تب یہ شک تھا کہ ایوب خان کے لئے ادیبوں کوپھانسنے کا جال ہے۔آج ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماسوائے اکا دکا ادیب کے کسی نے ایوب خان کے لئے اس طرح کام نہیں کیا ۔ گلڈ حکومتی ہتھیار ثابت نہیں ہوا، یہ سب شکوک غلط تھے۔ البتہ گلڈ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا، کچھ کتابیں چھپیں، کچھ مرحوم یا بیمار ادیبوں کو وظائف وغیرہ ملے۔، زیادہ نہیں ہوسکا، مگر اس کی وجہ حکومت نہیں بلکہ ادیبوں کے باہمی جھگڑے تھے۔ آئی سی ایس افسر ہونے کے باوجود قدرت اللہ شہاب نے اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے سے آٹھ برس پہلے ہی ملازمت سے استعفاد ے دیا تھا۔ جب جنرل یحییٰ خان کا شرابی ٹولہ ملک پر مسلط ہوا تو شہاب کو اندازہ ہوگیا کہ یہ ملک کو تباہ کر دیں گے۔ شہاب نے احتجاجاً اپنی ملازمت سے استعفا دے دیا اور اگلے کئی برس انگلینڈ میں خاموشی سے گزار دئیے۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے تین برس تک شہاب کی پنشن بند رکھی اور شہاب کو نہایت مشکل حالات میں گزارا کرنا پڑا۔ فوجی حکومت نے شہاب کو انگلینڈ سے اغوا کرانے کی کوششیں بھی کیں۔ شہاب کے حالات اس قدر خراب تھے کہ انہیں کئی بار دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا پڑتا۔ خراب مالی حالات اور ناکافی خوراک کی وجہ سے ان کی بیوی بیمار ہوگئیں، ان کے گردے خراب ہوگئے، شہاب کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں تھے۔ بروقت مناسب علاج نہ ہونے سے عفت شہاب بیالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد شہاب کو کئی مواقع ملے مگر انہوں نے لوپروفائل انداز میں خاموشی سے زندگی گزار دی۔ وہ چاہتے تو بھٹو اور پھر ضیا دور میں منصب حاصل کر سکتے تھے۔ جنرل ضیا نے شہاب کو تعلیم کے حوالے سے ذمہ داری سونپنے کا اعلان بھی کیا، شہاب نے معذرت کر لی۔ اگر مذہبی ٹچ والی بات ہوتی تو اس سے اصل فائدہ جنرل ضیا دور میں اٹھایا جا سکتا تھا، مگر شہاب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یہ ایک بیکار الزام ہے کہ ہر بیوروکریٹ ریٹائر ہونے کے بعد کتاب لکھ کر اپنی صفائیاں پیش کرتا ہے۔ کون سا بیوروکریٹ ؟ ایوب خان سے لے کر آج تک کے ساٹھ برسوں میںدس پرنسپل سیکرٹری آئے ہیں،ایک بھی پرنسپل سیکرٹری نے کتاب نہیں لکھی۔لکھنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔ وہی ایسا کرتے ہیں جن کا دامن صاف ہوتا ہے۔ شہاب ایسا ہی منفرد، یکتا اور ممتاز شخص تھا۔ یہ بھی عجیب الزام ہے کہ دوران ملازمت یہ باتیں لکھتے ، تب خامو ش رہے،ریٹائر ہونے کے بعد کتاب لکھ ڈالی۔بھلے لوگو، دوران ملازمت قواعد وضوابط کی پابندی کتاب لکھنے سے روکتی ہے۔ کتاب لکھی ہی ریٹائرمنٹ کے بعد جاتی ہے بلکہ ریٹائر ہونے کے دو سال بعد۔ دنیا بھر کے جنرل، سیاستدان، انٹیلی جنس افسران، جج اور بیوروکریٹ ریٹائر منٹ کے بعد کتابیں لکھتے ہیں۔ مغربی سماج ایسے معاملات میں بہت حساس ہے، مگر ایسا پوچ اور بچکانہ الزام وہاں کوئی نہیں لگاتا۔ قدرت اللہ شہاب چی گویرا تھا نہ اس نے ایسا دعویٰ کیا۔ شہاب نے کبھی انقلابی ہونے کا اعلان کیا اور نہ ہی سماج سدھار تحریک چلائی نہ ہی سیاست میں حصہ لیا۔ اس کا تو کوئی دعویٰ ہی نہیں ۔ وہ ایک سول سرونٹ تھا، ایک اچھا ، دیانت دار سول سرونٹ۔ بس یہی اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو کہا۔ کبھی روحانیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ دوران ملازمت توخیر اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد بھی شہاب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی روحانیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ ممتاز مفتی کی محبت اور فسانہ طرازی ہے۔ شہاب نامہ کا آخری باب جو تصوف پر ہے، وہ سب سے آخر میں لکھا گیا اور شہاب صاحب کی زندگی میں یہ مواد شائع نہیں ہوا تھا۔ شہاب صاحب کی روحانیت کے حوالے سے اقرار ان کی وفات کے بعد ہی سامنے آیا تو اس سے فائدہ اٹھانے والا الزام ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ان کی کتاب’’ شہاب نامہ ‘‘ایک شاندار نثری نمونہ ہونے کے ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہے۔ کتاب کو شروع کرو تو پھر اسے الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا اور بلامبالغہ اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے، اردو کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ضخیم کتاب ہے۔ شہاب نامہ کے انسٹھ( 59)ابواب (Chapters)ہیں، ان میں سے ستاون 57پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں، ان میں ایسا کچھ نہیں جسے متنازع کہا جائے۔ کتاب کا ایک باب بملاکماری کی روح کے حوالے سے ہے، اس میں ایک آسیب زدہ مکان میں رات گزارنے کا احوال بیان کیا گیا جس میں شہاب کے بقول کسی روح نے اسے تنگ کیا، اس کی دلچسپ روداد بیان کی۔ شہاب کے بقول گرامو فون یکایک بجنا شروع ہوجاتا۔ شہاب نے تجربے کے طور پر کلمہ شریف کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر گراموفون پر لکھ دیا تو آواز رک گئی۔ جب کلمہ کا اردو ترجمہ لکھ کر رکھا تو آواز نہ رکی، ایسا صرف عربی میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھنے سے ہوا کہ بجتا گرامو فون بند ہوگیا۔ کچھ لوگوں کا اس باب پر اعتراض ہے کہ یہ ناقابل فہم اور غیر سائنسی بات ہے۔ ان لوگوں کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، مگر ہم میں سے بہت سوں نے جنوں، بھوتوں کے اس سے زیادہ واقعات سن رکھے، بے شمار لوگوں کو ذاتی تجربہ بھی ہوا۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں جس پرہزار صفحات سے زیادہ ضخیم شہاب نامہ ہی کو رد کر دیاجائے۔ آپ اس باب کو نظرانداز کر کے آگے چل پڑیں۔ شہاب نامہ پر سب سے زیادہ تنقید اس کے آخری باب ’’چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘پر ہوتی ہے۔ شہاب نے اس میں اپنے روحانی تجربات، احوال بیان کئے ۔ شہاب صاحب کے بقول ایک پراسرار نادیدہ سلسلہ سے اس کی روحانی رہنمائی ہوئی۔شہاب نے انہیں نائنٹی کا نام دیا کہ یہ بزرگ ا ن کی پراسرار طریقوں سے رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اگر بیان نہ کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتی کہ تصوف کے فریم ورک سے باہر کے لوگوں کے لئے ایسی چیزوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ تصوف سے مس رکھنے والے البتہ ان باتوں پر نہیں چونکتے کیونکہ اس میں اہم نکتہ یہ ذریعہ نہیں، اس کی تعلیمات ہوتی ہیں۔ اس باب میں ویسے قدرت اللہ شہاب نے تصوف کی جو تعریف بیان کی ، وہ درست اور ہر قسم کے بدعات اور رسومات وغیرہ سے دور ہے۔ شہاب کرشمہ، کرامات کے بجائے شریعت کے تابع تصوف کی تلقین کرتے ہیں ، ان کے بقول اصل مقصد ہی شریعت کی پابندی کرنا ہے اور تصوف صرف کپیسٹی بلڈنگ کرتا ہے۔ شہاب نے آخر میں چند دعائیں بیان کی ہیں، مگر مجموعی طور پر شہاب وظائف واوراد کی حوصلہ شکنی کرتا اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری محنت کرنے اور پھر رب سے دعا کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ آخری باب روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے بہت مفید اور معلومات افزا ہے۔ نائنٹی کے تذکرہ کو اگر نظرانداز کر کے چلیں تو پھر سب کچھ بہت ہی آسان اور قابل فہم لگتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ شہاب نے کبھی پیری مریدی نہیں کی،روحانیت کا اعلان تک نہیں کیابلکہ پوچھنے پر انکار ہی کرتے رہے۔ان کے مرنے کے بعد یہ سب کچھ شائع ہوا۔ ان کے دنیا سے جانے کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا۔ان کا عرس ہوتا ہے نہ ہی زیادہ لوگوں کو قبر کا علم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شہاب نامہ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ اس کے آخری باب سے ہزاروں لوگ روحانیت اور نیکی طرف مائل ہوئے ۔ شہاب نامہ ہی غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کے دور کو سمجھنے کی سب سے مستند اور عمدہ تاریخ ہے۔ شہاب کے مضامین ماں جی اور یاخدا پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی مرحومہ بیوی عفت شہاب پر لکھا مضمون دل کو چھونے والا ہے۔ شہاب نامہ میں بہت کچھ ایسا ہے جو اس شاندار کتاب کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہاب نامہ کی یہی غیر معمولی مقبولیت اور پزیرائی ہی نے شائد حاسدین کا ایسا طبقہ پیدا کیا، جس کے دل میں شہاب کے مرنے کے چالیس سال بعد بھی ٹھنڈک نہیں پڑی۔ جب تک شہاب نامہ اور اس کا روحانیت والا باب پڑھا اور ڈسکس ہوتا رہے گا، ایک خاص طبقہ ہمیشہ شہاب کو ملامت کا نشانہ بناتا رہے گا۔