جب جنرل باجوہ آرمی چیف تھے تو ڈی جی آئی ایس پی آر میڈیا کے روبرو آ کر بتایا کرتے تھے کہ جنرل باجوہ کا اندازِ نظر اور اندازِ فکر کیا ہے۔اِسے وہ باجوہ ڈاکٹرائن کہتے تھے ۔جب میڈیا اور سول سوسائٹی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا آئین اس کا مینڈٹ دیتا ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے وضاحت کی کہ جنرل صاحب کا ویژن برائے سکیورٹی آف پاکستان ہے۔خطے کے متعلق ہے۔پاکستان کے امریکہ اور چین سے تعلقات بارے ہے۔افغانستان اور بھارت کے علاوہ کشمیر پر اُن کی اور اُن کے ادارے کی حکمت عملی کا اظہار ہے۔سول اور ملٹری تعلقات اور توازن پر ان کا فلسفہ کیاتھا اس پر بات پھر کرتے ہیں۔میں اس وقت اُن کی ڈاکٹرائن میں تلاش کیا کرتا تھا،ہائبرڈ وار کیا ہے؟سکستھ جنریشن جنگ کا کیا مطلب ہے؟پھر ہمیں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اس جنگ سے مُراد وہ فساد ہے جو نان اسٹیٹ ایکٹرز نے میڈیا،سوشل میڈیا اور دیگر محاذوں پر برپا کر رکھا ہے۔2007ء کے بعد سے ہی جو بھی آرمی چیف آتا ہے اس کے خیالات کو غور سے سُنا اور سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان جس خطے میں ہے یہاں کے جیو سٹریٹجک معاملات خاصے نازک ہیں۔پڑوس میں ایران۔۔افغانستان،چین اور بھارت سبھی سے ہمارے تعلقات میں فوج اور اس کے سربراہ کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔باقی پاکستان کا سیاسی نظام کچھ ایسا ہے جس میں خاکی کو سول پر ایک خاص طرح کی فوقیت حاصل رہتی ہے۔ الیکشن، پارلیمنٹ،آئین اور جمہوریت کے باوجود۔ پنڈت اصرار کرتے ہیں کہ اسے ہائبرڈ جمہوریت کہتے ہیں۔ جنرل مشرف کے بعد جب کیانی آرمی چیف بنے تو کیانی ڈاکٹرائن سامنے آئی۔سوات کو فوج نے انتہا پسندوں سے واگزار کروایا۔پھر راحیل ڈاکٹرائن آ گئی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہوا،غالباً آپریشن رد الفساد۔پھر جنرل باجوہ آ گئے اور باجوہ ڈاکٹرائن میڈیا پر ڈسکس ہونے لگی۔اب یہ پاکستان کے سیاسی کلچر کا حصہ ہے کہ آرمی چیف کے خیالات،اس کی شخصیت،اس کے وژن،اندازِ فکراور اندازِ نظر کو غور سے دیکھا جاتا ہے۔جانچ پرکھ ہوتی ہے اس کے کہے ہوئے جملوں کی۔ان پر تجزیے بھی ہوتے ہیں اور تبصرے بھی۔چیف کے ورڈ ویو کا اثر ہماری خارجہ پالیسی پر بھی ہوتا ہے اور سلامتی کے تصورات پر بھی۔امریکہ سے لے کر چین تک اور افغانستان سے بھارت تک جو بھی طے پاتا ہے اور ڈیزائن کیا جاتا ہے اس میں آرمی چیف کی رائے جیومیٹری کے دائرے میں پرکار جیسی ہوتی ہے۔جدید تصور ہے کہ سلامتی صرف روایتی سرحدوں تک نہیں ہوتی۔سلامتی کے جدید تصور میں معاشی اور سیاسی استحکام سرِ فہرست ہے۔چند دن پہلے اسلام آباد کے کنوینشن سنٹر میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طلباء اور طالبات کے ساتھ وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کا اہتمام کیا۔تقریباً دو ہزار سٹوڈنٹس تھے۔گفتگو اور مکالمے کا عرصہ تقریباً3گھنٹوں پر محیط تھا۔جو کچھ آرمی چیف نے نوجوان نسل سے بات کرتے ہوئے کہا اس کا ایک پسِ منظر بھی ہے اور پیشِ منظر بھی۔ تاریخ کا نچوڑ ہے،مادی وسائل کم ہوں یا زیادہ لیڈرشپ قابل اور با صلاحیت ہو توطوفاں سے کشتی نکال کر لے جاتی ہے ورنہ زوال تقدیر بن جاتا ہے۔امریکہ کے ایک صدر ہوا کرتے تھے۔۔رچرڈ نکسن۔لیڈر شپ پر اپنی کتاب میں کہتے ہیں:سیاست اور ریاست میں طاقت کا مطلب ہوتا ہے۔۔لاکھوں لوگوں کی موت یا زندگی،خوشحالی یا غربت،خوشی یا غم۔سوشل سوشیالوجسٹ آج کل ایک اسطلاح کا استعمال بہت کرتے ہیں"Youth Bulge"۔اس سے مراد یہ ہے کہ ماڈرن سیاست،ریاست اور سماج میں نوجوان نسل کا کردار بڑا اہم ہے۔اگر اسے سوشل میڈیا سے ضرب دیں تو پاکستان میں پی ٹی آئی کی طاقت اور مقبولیت کا سبب سمجھ آنے لگتا ہے۔خان بیانیہ ترتیب دینے کا ماہر ہے۔اس نے نوجوان کو یقین دلا دیا ہے کہ یہ نظام بوسیدہ اور پرانا ہے یعنی جب تم ہی نہ مہکو پھر صاحب۔۔یہ بادِ صبا کہلائیں تو کیا؟اصولاً تو اس عمرانی بیانیے کا جواب چُوری کھانے والے شریفس اور زرداریز کو دینا چاہیے تھا۔مگر انہیں اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات،اس بنا پر فکرِ ملک وہ کیا کریں۔عمران نے سچا یا جھوٹا بیانیہ بنایا اوریوتھ اس کی دیوانی ہو گئی۔اب الیکشن ہو گا،تحریکِ انصاف حکومت میں نہیں آئے گی۔الیکشن کے بعد یہی یوتھ سیاسی استحکام کے گلے کی ہڈی بن جائے گی۔نتیجہ؟سسٹم لرزتا رہے گا۔سیاسی ابتری مزید معاشی بحران کو جنم دے گی۔ضرورت ہے نوجوان نسل کی اس عینک کو بدلنے کی جس سے وہ سسٹم اور سوسائٹی کو دیکھتی ہے۔یہ معجزۂ محبت صرف قابل لیڈر شپ ہی دکھا سکتی ہے۔مگر یہ کون کرے گا؟ جنرل عاصم منیر اپنے مذہبی پسِ منظر کی وجہ سے دین کا فہم اور نظریۂ پاکستان کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ان کی تقریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کا توکل اللہ پر نہیں حالات پر ہے اور حالات انہیں مایوس کر رہے ہیں۔آج کی پاکستانی یوتھ ڈپریس ہے اور ڈپریشن انہیں یہی کہہ رہا ہے ۔۔مٹا دو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا۔مگر نہ تو نئی نسل کو انقلاب کی اے بی سی کا پتہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے زمینی حقائق کا۔ایسے میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو صرف اور صرف لیڈر شپ کا خلا ہے۔جسے یوتھ لیڈر سمجھتی ہے ریاست اسے کسی اور طرح جانتی ہے۔ریاست کے مطابق اس پاپولر لیڈر نے معیشت اور خارجہ پالیسی کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔مگر جدید جمہوریت کا المیہ بھی ہے اور کامیڈی بھی کہ جو پاپولر ہے اسے حکومت دے دو۔جنرل عاصم کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے داخلی عدم ِ استحکام میں یوتھ کے کردار کو نئے سرے سے نئے بیانیے کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔چیف یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سلامتی صرف خارج میں ہی نہیں داخل میں بھی اتنی ہی اہم ہے۔فوج اکیلی ہر جگہ پر موجود نہیں ہو سکتی۔نوجوان نسل پاکستان کا مستقبل ہے۔ضرورت ہے اس کا سسٹم پر اعتماد بحال کرنے کی۔آرمی چیف معاشی استحکام ،خارجہ محاذ اور سلامتی کے تصورات کے لیے کیا کر رہے ہیںاسے سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ انتخاب کے بعد پاکستان کو درپیش معاشی ،سیاسی اور سلامتی کی مشکلیں اور بھی بڑھ جائیں گی۔ (جاری ہے)