دوستوں کا اصرار رہتا ہے کہ سیاست پر اپنا تجزیہ دوں۔ میں ان کی فرمائش پر لکھ دیتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب سے سیاسی جماعتوں کو لمیٹڈ کمپنیوں کی شکل میں چلایا جانے لگا ہے ہر جماعت نے اپنے پی آر او رکھ لیے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر آزاد رائے رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں کسی شخصیت یا جماعت کا اندھا دھند دفاع کرتے ہیں۔ کمال یہ کہ اپنے بارے میں عقل و فہم کا کوہ ہمالیہ کا دعویٰ بھی۔ ان کی گفتگو اور تحریر پروپیگنڈہ ہوتی ہے۔میں میڈیا کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس سوچنے والے دماغ کم ہو رہے ہیں ، اگر کوئی سوچنے والا ہوتا تو ملک میں برسوں سے ایک ہی نوع کی گفتگو کیوں سنائی دیتی، افسوسناک امر یہ کہ مظلوم اور ظالم تک نہیں بدلے ۔ کالم کا مواد نہیں بدل رہا ،چلیں آج ایک پیج پر ہونے کی کہانی کو کچھ حقیقی واقعات کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھ لیتے ہیں۔میں سول ملٹری ریلیشن کی بات نہیں کر رہا ، ہاں اس کل میں سول ملٹری ریلیشن کا ایک جزوی علاقہ ضرور آ جاتا ہے ۔ گلبرگ اور گارڈن ٹائون کو ملانے کے لیے حال ہی میں انڈرپاس بنے ہیں۔ صوبائی حکومت نے دن رات اس کی نگرانی کی۔ عملے نے محنت سے کام کیا۔ منصوبہ بروقت مکمل ہو گیا۔ہمارے ہاں مدت سے کامیابی کا معیار یہ طے کر لیا گیا ہے کہ منصوبہ جلد مکمل ہو جائے ۔ دو روز پہلے ہونے والی بارش نے یہ انڈر پاس ڈبو دیئے۔ اتنی محنت اور نگرانی کے باوجود ایک نقص رہ گیا تھا۔ پتہ چلا ہے کہ 3 انڈرپاسوں میں نکاسی آب کے ڈیزائن میں خامیاں رہ گئی ہیں۔ممکن ہے ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے انڈر پاس کچھ مدت تک بند رکھنا پڑیں،معلوم نہیں مزید کتنے روپے خرچ ہوں ،یہ یقین بھی نہیں کہ اس کے بعد یہ ٹھیک ہو سکے یا نہیں۔ اصولی طور پر پانی کی فراہمی و نکاسی کا انتظام کرنا واسا کی ذمہ داری ہے۔ واسا سرکاری ادارہ ہے۔ انڈر پاس بھی سرکار کے ہوتے ہیں۔ واسا نے پھر ان انڈرپاسوں کے ڈرینج سسٹم کی ذمہ داری قبول کیوں نہیں کی۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے‘ واسا اور سی بی ڈی پنجاب نکاسی آب کے معاملے پر ایک پیج پر نہ آ سکے۔ واسا کہتا ہے کہ ایل ڈی اے کو مسائل دور کرنے کے لیے مراسلے بھیج دیئے ہیں۔ جب تک انڈرپاسوں کے ڈیزائن میں خامیاں دور نہیں ہوتیں‘ واسا ان کا کنٹرول نہیں لے گا۔ گرین ٹاون میںہمارے گھر کے عقب میں ڈیڑھ سال پہلے دو رویہ سڑک تعمیر ہوئی ہے۔ ایک کشادہ گرین بیلٹ درمیان میں ہے۔ گزشتہ برس میں نے پارکس اینڈ ہارٹیکلچر والوں سے کہا کہ یہاں پودے لگوا دیں۔ انہوں نے فنڈز کا بہانہ کیا‘ میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر وہاں 400 کے قریب پھلدار اور سایہ دار پودے لگوا دیئے۔ پی ایچ اے نے ایک روز پانی کا باوزربھیجا اس کے بعد پانی نہ مل سکا۔ پی ایچ اے کے دو ڈپٹی ڈائریکٹر پہلے علاقے اپنی حدود سے باہر بتاتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک مصباح ڈار نے بتایا کہ جب تک ایل ڈی اے اس سڑک کو پی ایچ اے کے حوالے نہیں کرے گی وہ یہاں پودوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔میرے لگائے گئے اکثر پودے چند دن بعد پڑنے والی سخت گرمی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ہمارے پیسے ضائع گئے‘ لوگوں کو چھائوں نہ مل سکی۔ امیر چوک سے لے کر باگڑیاں چوک تک بننے والی اس سڑک کے درمیان لوگ کوڑا پھینکتے ہیں‘ کچھ بلڈنگ میٹریل والوں نے اپنا سامان رکھ دیا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ تازہ بارشوں سے پتہ چلا کہ اس سڑک کے ساتھ نکاسی آب کا انتظام ہی نہیں کیا گیا۔ پانی کھڑا ہے۔ خدشہ ہے سڑک جلد ہی برباد ہو جائے گی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ہمارے ترقیاتی ادارے اور مقامی آبادی ایک پیج پر نہیں تھی۔ کاغذوں اور دستاویزات میں منصوبے کو اس کی جزئیات کے ساتھ نمٹا دیا جاتا ہے۔ ہر چیز کی تکمیل احسن انداز میں دکھائی جاتی ہے۔ انجنیئر‘ سپروائزر اور متعلقہ اعلیٰ افسران کی بریفنگ شاندار ہوتی ہے۔تالیاں پیٹی جاتی ہیں ، سوٹ پہنے بابو لوگ اپنی شاندار منصوبہ بندی پر پھولے نہیں سماتے ۔ منصوبے کی بروقت تکمیل پر کچھ لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دیئے جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پھر منصوبوں میں نقص کیوں رہ جاتے ہیں ۔ان منصوبوں کو کون لوگ کامیاب ماننے کو تیار نہیں ہوتے ؟ جواب ہے! عام لوگ۔ جو ان منصوبوں میں موجود نقائص کو بھگتتے ہیں۔ میرا خیال ہے عدلیہ‘ انتظامیہ‘ مقننہ اور ہمارے قابل صد احترام ریاستی ادارے پاکستان کو کامیاب ریاست بنانے کے لیے پرخلوص ہیں۔ ان کے خلوص کی دلیل یہ ہے کہ وہ ملک کی تعمیروترقی کے لیے بڑے بڑے منصوبوں کا سوچتے ہیں‘ خطیر رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ ان منصوبوں کی جزئیات تک جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ممکنہ خرابیوں اور فوائد سے آگاہ ہوتے ہیں۔ دن رات کام کی رفتار تیز رکھنے کے لیے نگرانی کرتے ہیں۔ان کی محنت اور پر خلوص مساعی تسلیم لیکن پھر انہیں یہ پتہ کیوں نہیں چل پاتا کہ لوگ نئے منصوبے میں موجود خامیوں سے خوش نہیں۔ ایسے میں خرابی تلاش کرنے کے لیے ان روایتی ماہرین‘ پی آر او ٹائپ تجزیہ کاروں اور فیک گفتگو کے دائرے سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا پڑے گا۔ ہم سب اس وقت دقتوں میں پڑ جاتے ہیں جب ایک دوسرے سے بات چیت ، مشاورت اور تبادلہ خیال کے دروازے بند کر دیتے ہیں ۔اقبال نے فرمایا تھا : نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں جب قدرت کے کارخانے میں سب نباتاتو حیوانات کا ایک کردار ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ملک جس میں پچیس کروڑ لوگ بستے ہوں وہاں پیج پر اشرافیہ کے ستخط ہی فیصلے کی سند ہوں ۔